میں نے قسم کے یہ الفاظ کئی بار سنے ہیں لیکن مجھے ان کا حکم معلوم نہیں ہے، میں نے قسم اٹھاتے ہوئے کئی لوگوں کو سنا ہے کہ: "میں اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھاتا ہوں" میں آپ سے ملتمس ہوں کہ اس طرح کے الفاظ کے ساتھ قسم اٹھانے کا حکم واضح فرمائیں، نیز یہ بھی بتلائیں کہ اگر کسی کو ان الفاظ کا حکم معلوم نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھانے کا حکم
سوال: 155001
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قسم صرف اللہ تعالی کی ذات، یا اللہ تعالی کے اسما و صفات میں سے کسی اسم یا صفت کی ہی اٹھائی جا سکتی ہے؛ کیونکہ صحیح بخاری: (2679) میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی قسم اٹھانا چاہے تو وہ صرف اللہ کی قسم اٹھائے، یا خاموش ہو جائے۔)
آیات الٰہیہ کی دو قسمیں ہیں:
شرعی آیات: اس سے مراد کلام الہی ہے جو کہ قرآن کریم اور اس کے علاوہ اللہ کے بندوں کی طرف وحی شدہ الفاظ سمیت ہمہ قسم کے کلام الہی پر مشتمل ہے۔
کونی آیات: مثلاً: رات، دن، آسمان، زمین وغیرہ پر مشتمل کائنات کی چیزیں جو کہ اللہ تعالی کی عظمت، علم اور حکمت کی دلیل ہیں۔
اس بنا پر اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھاتا ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:
پہلی صورت: اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھائے اور اس کا مقصد کلام الہی کی قسم ہو مثال کے طور پر قرآن کی قسم مراد لے، تو پھر ایسی صورت میں قرآن کریم کی قسم اٹھانا جائز ہے؛ کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اور کلام الہی اللہ تعالی کی ایک صفت ہے۔
دوسری صورت: اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھائے اور اس کا مقصد کونی آیات کی قسم ہو مثال کے طور پر، رات، دن، سورج، چاند وغیرہ تو ایسی صورت میں قسم اٹھانا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ کونی آیات مخلوق ہیں اور مخلوق کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً: آپ کہیں: میں اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھاتا ہوں ۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھانا اس وقت جائز ہے جب قسم اٹھانے والا شخص قرآن کریم مراد لے؛ کیونکہ قرآن کریم کلام الہی ہے اور کلام الہی اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک صفت ہے، لیکن اگر آیات سے مراد قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور چیز مراد لے تو پھر یہ جائز نہیں ہو گا۔
اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے، رحمت و سلامتی ہو ہمارے نبی محمد اور آپ کی آل و صحابہ کرام پر۔
رکن: بکر بن عبد اللہ ابو زید رکن: صالح بن فوزان الفوزان صدر: عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ۔" ختم شد
فتاوى اللجنة الدائمة – پہلا ایڈیشن" (23/ 48)
اسی طرح الشیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"کلام الہی ، اور کلمات الٰہیہ کی قسم اٹھانا جائز ہے، اسی طرح آیات الٰہیہ کی قسم اٹھانا بھی اس وقت جائز ہو گا جب اس سے قرآن کریم کی آیات مراد لی جائیں، مثلاً: کوئی شخص کہے: اللہ تعالی کی نازل شدہ آیات کی قسم، یا کہے: قرآنی آیات کی قسم۔ لیکن اللہ تعالی کی ایسی آیات جو کہ مخلوق ہیں مثلاً: سورج، چاند وغیرہ تو ان کو مراد لیتے ہوئے آیات الہی کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مخلوق کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص آیات الہی سے مراد اللہ تعالی کی مخلوق آیات لے تو وہ غیر اللہ کی قسم اٹھا رہا ہے، اور غیر اللہ کی قسم اٹھانا شرک ہے۔ جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (جو شخص غیر اللہ کی قسم اٹھائے تو اس نے کفر یا شرک کیا) اس حدیث کو احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے، جبکہ امام حاکم اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔ عام طور پر اللہ تعالی کی آیات سے مراد قرآنی آیات ہی لی جاتی ہیں اس لیے اللہ تعالی کی آیات کی قسم اٹھانا جائز ہو گا۔" مختصراً ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب