سوال: میں ایک یورپی ملک میں پڑھتا ہوں اور ایسے شہر کا رہائشی ہوں جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے، اور مجھے ان کے بارے میں یہ بھی علم نہیں ہے کہ کون غریب ہے اور کون قربانی کے گوشت کا مستحق ہے، تو کیا میرے لئے یہ افضل ہوگا کہ میں اسی یورپی ملک میں قربانی کروں، یا پھر کسی کو اپنے ملک میں قربانی کیلئے نمائندہ بنا دوں؟
یورپی ملک میں پڑھتا ہے، تو کیا وہیں پر قربانی کرے یا کسی کو اپنے ملک میں قربانی کیلئے نمائندہ بنائے؟
سوال: 159854
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شرعی طور پر جہاں انسان رہتا ہوں وہیں پر قربانی کی جاتی ہے، اسی طرح قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا شرعی طور پر افضل ہے، چنانچہ خود قربانی کر کے اس کا گوشت بھی تناول کرے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کا اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ گوشت حاصل ہو، بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلامی شعائر کو اجاگر کیا جائے۔
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی اور عقیقہ اپنے ہاتھ سے مدینہ میں ہی ذبح کرتے تھے، آپ انہیں مکہ ارسال نہیں کرتے تھے، حالانکہ قربانی مکہ میں افضل ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کے فقراء مدینہ کے فقراء سے زیادہ محتاج ہوں، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ کی پابندی فرمائی جس جگہ پر اللہ تعالی نے عبادت کو شرعی قرار دیا، چنانچہ آپ نے ہدی کبھی مدینہ میں ذبح نہیں کی اور نہ ہی قربانی و عقیقہ کا جانور مکہ بھیجا، بلکہ ہر ایک کو وہیں پر ذبح کیا جہاں وہ مشروع تھا، اور یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ (بہترین رہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی ہے، اور خود ساختہ امور بد ترین امور ہیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے) “انتہی
“المنتقى من فتاوى الفوزان” (50 /10)
اصل یہی ہے کہ قربانی اسی جگہ ہوگی جہاں پر قربانی کرنے والا موجود ہے، اور کسی کو دوسرے علاقے میں قربانی کرنے کی ذمہ داری مت دے ۔
لیکن اگر قربانی کرنے والا ایک ملک میں اور اس کے اہل خانہ دوسرے ملک میں ہوں تو اگر دو قربانیاں کر سکتا ہے تو یہ افضل ہے، ایک اپنے ملک میں اور دوسری اہل خانہ کے ملک میں، اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اہل خانہ کے ملک میں قربانی کی رقم منتقل کر دے اور وہ اس کی طرف سے وہیں پر قربانی کر دیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“جو مزدور لوگ یہاں اپنے ملک میں اہل خانہ چھوڑ کر آتے ہیں اور اس کے اہل خانہ کو یہاں کے لوگوں سے زیادہ قربانی کی ضرورت ہے ، تو کیا اس کیلئے یہاں قربانی کرنا افضل ہے یا اپنے اہل خانہ کے ملک میں؟ آپ جانتے ہیں کہ کچھ اسلامی ممالک میں غربت بہت زیادہ ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ یہاں اور وہاں دو قربانی کرے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر اپنے اہل خانہ کے ہاں ہی قربانی کر لے تا کہ اس کے اہل خانہ ان بابرکت دنوں میں خوشی منا سکیں” انتہی
“اللقاء الشهری” (1 /440)
اسی طرح ان سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ :
“ہم اس ملک [سعودی عرب] کے شہری نہیں ہیں، اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اہل خانہ قربانی کے سخت ضرورت مند ہوتے ہیں کہ وہ گوشت اور کھال وغیرہ سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، ہمارے علاقوں میں عام طور پر غربت ہی غربت ہے ، تو کیا ہم قربانی کی رقم ان کے پاس بھیج سکتے ہیں، تا کہ وہ ہماری طرف سے قربانی کر دیں، یہ واضح رہے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس اسلامی شعیرہ کو اجاگر کیا جائے”
تو انہوں نے جواب دیا:
اگر انسان ایک ملک میں ہو اور اس کے اہل خانہ دوسرے ملک میں ہوں تو وہ اپنے اہل خانہ کے ہاں کسی کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کیلئے نمائندہ مقرر کر سکتا ہے، تا کہ اس کے اہل خانہ قربانی سے فائدہ اٹھا سکیں؛ کیونکہ اگر اس نے اپنے ملک میں قربانی کر بھی لی تو قربانی کا یہ گوشت کون کھائے گا؟ بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ قربانی کا گوشت کھانے والا کوئی بھی نہ ملے، اس میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس کے اہل خانہ دوسرے ملک میں ہیں تو وہ ان کے پاس رقم منتقل کر دے اور وہ وہیں پر قربانی کریں” انتہی
“اللقاء الشهري” (2 /306)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب