0 / 0
11,76325/09/2014

عشرہ ذو الحجہ کی فضیلت میں “ایام عشر” کی بجائے “لیال عشر” کہنے کی حکمت

سوال: 160166

سوال: میرے ایک عزیز کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ فرمانِ الہی : "ولیال عشر" میں کیا حکمت ہے؟ حالانکہ عشرہ ذو الحجہ کے فضائل صبح کے وقت یعنی دن کے اوقات میں ہیں رات میں نہیں ہے، اور میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ حکمتِ الہی ہی حرفِ آخر ہے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

فرمان باری تعالی: وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2)

ترجمہ: قسم ہے فجر کے وقت کی [1] اور دس راتوں کی [الفجر : 1 – 2]

یہاں آیت میں مذکور "دس راتوں " سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کے ہاں مختلف اقوال ہیں:

1- جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ ہے، بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا، اور کہا ہے کہ: "اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں، کیونکہ تمام معتمد مفسرین کا اس پر اجماع ہے"انتہی

تفسير ابن جرير : (7/514)

اور ابن کثیر (4/535)رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دس راتوں سے مراد عشرہ ذوالحجہ ہے، جیسے کہ ابن عباس، ابن زبیر، مجاہد، اور متعدد سلَف اور خلَف علمائے کرام سے منقول ہے"

یہاں آپکا ذکر کردہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ "ایام"کے بارے میں "لیالی"کے لفظ سے تعبیر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

تو اسکا جواب مندرجہ ذیل انداز سے دیا جاسکتا ہے:

چونکہ عربی زبان بہت وسیع ہے، اس لئے یہاں پر "ایام" کیلئے "لیالی " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ بسا اوقات عربی زبان میں "لیالی " بول کر "ایام" مراد لیا جاسکتا ہے، اور صحابہ کرام و تابعین عظام عام طور پر "ایام" کیلئے "لیالی" کا لفظ ہی استعمال کرتے تھے، حتی کہ روزے رکھنے کے بارے میں انکا ایک مقولہ مشہور تھا کہ " صمنا خمسا "[اس جملے میں "خمس" تمییز کی بنا پر منصوب ہے، اور عربی زبان میں "خمس" مذکر اس وقت بولا جائے گا جب اسکا معدود مؤنث ہو، یعنی اس جملے میں لفظ "ایام" کو معدود نہیں بنایا گیا، بلکہ لفظ "لیالی" کو معدود بنایا گیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ "ایام "کی جگہ "لیالی " کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مترجم]اگرچہ روزہ دن میں رکھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم

متعدد علمائے کرام نے اس بارے میں صراحت بھی کی ہے جن میں ابن العربی "أحكام القرآن" ( 4/ 334 ) میں اور ابن رجب "لطائف المعارف" ( 470 ) میں ، شامل ہیں۔

2- کچھ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ ان دس راتوں سے مراد رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے، یہ قول بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انکا کہنا ہے کہ اس سے مراد رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے، جس میں لیلۃ القدر ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ )

ترجمہ: لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بھی افضل ہے۔ [القدر: 3]

ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:

(‏‏إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ [3]فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)

ترجمہ: ہم نے [قرآن ] کو با برکت رات میں نازل کیا ہے، بلاشبہ ہم ہی ڈرانے والے ہیں [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے فیصلے کو منتقل کیا جاتا ہے[الدخان: 3-4]

اسی موقف کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، کیونکہ یہ موقف آیت کے ظاہری مفہوم سے مطابقت رکھتا ہے۔

دیکھیں: تفسیر 30 واں پارہ، از شیخ ابن عثیمین .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android