اس كے باوجود كے اس نے مجھے تعليم سے نہيں روكا ليكن اللہ كا احسان ہے كہ ميں گھر بيٹھ كر ترجمہ كر كے الحمد للہ اچھى خاصى رقم كما ليتى ہوں، ميرا سوال اس مال كے بارہ ميں ہى ہے، كيا ميرے خاوند كو اس مال ميں تصرف كرنے كا حق حاصل ہے، يہ نہيں كہ وہ ميرا مال مجھ سے لے ليتا ہے ليكن اگر كبھى ميں گھر كے ليے كچھ اشياء خريدنا چاہوں تو وہ اس سے بھى انكار كر كے كہتا ہے وہ خود سارى اشياء اپنى رقم سے خريدےگا، چاہے ميں اپنے ليے بھى خريدنا چاہوں تو نہيں خريدنے ديتا.
بلكہ كہتا ہے كہ بہتر ہے ميں اپنا مال ضائع نہ كروں مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ ميں اپنے ان پيسوں كا كيا كروں كيونكہ گھر كے كرايہ ميں بھى تعاون نہيں كرنے ديتا، يہ صحيح ہے كہ گھر كے اخراجات اور اشياء كى خريدارى خاوند كے ذمہ ہے ليكن اس ميں كيا مانع ہے كہ بيوى بعض اوقات اپنى رقم سے خاوند كا تعاون كر دے اگر بيوى مالدار ہے تو اس ميں كوئى مانع نہيں ہونا چاہيے، ميں چاہتى ہوں كہ خاوند كا كچھ بوجھ ہلكا ہو، ليكن وہ نہيں مانتا، كيا ميں خاوند كے علم كے بغير كچھ كر سكتى ہوں.
ليكن اس سے قبل ميں اس سلسلہ ميں شرعى حكم جاننا چاہتى ہوں كہ آيا ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں كہ جو كچھ وہ بچا كر ركھتا ہے كيا ميں اس كے علم كے بغير كچھ پيسے اس ميں ركھ سكتى ہوں، اور ميں اسے صدقہ خيال كر كے ركھ ديا كرو يا كہ مجھے خاوند كو ضرور بتانا ہوگا ؟
خاوند گھر كے اخراجات ميں ميرا تعاون قبول نہيں كرتا
سوال: 161237
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہمارى سائلہ بہن اللہ تعالى آپ كے اس خاوند كو اور بركت سے نوازے، آپ كا خاوند بااخلاق اور على مروت ہے، اس طرح كے لوگ بہت ہى كم پائے جاتے ہيں جو اپنى بيويوں كے خاص مال سے بھى بچتے ہوں اور اسے اپنے ليے خرچ كرنے كو اچھا نہ سمجھتے ہوں، اور اس سے اجتناب كرنے پر اصرار كرتے ہوں اور ہاتھ تك نہ لگائيں، تا كہ وہ اپنى بيوي كے حقوق كو سلب نہ كريں، اور شبہ و شك ميں نہ پڑيں، يہى وہ حسن سلوك اور حسن معاشرت ہے جس كا اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت كے سے پيش آيا كرو النساء ( 19 ).
اور حكيم بن معاويہ القشيرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارى بيويوں كے ہم پر كي حقوق ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم كھاؤ تو بيوى كو بھى كھلاؤ، اور جب تم لباس پہنو تو بيوى كو بھى پہناؤ، اور چہرے پر مت مار، اور بيوى كو بدصورت اور بدشك و قبيح مت كہو، اور گھر كے علاوہ اس سے بائيكاٹ مت كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ).
ولا تقبح: كا معنى يہ ہے كہ تم يہ مت كہو كہ اللہ تجھے قبيح بنائے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى تم بيوى كو چھوڑ كر اپنے ليے لباس خاص مت كرو كہ اپنے ليے تو لباس خريدتے رہو اور بيوى كو لے كر ہى نہ دو، اور خود كھاتے پيتے رہو اور بيوى كو كچھ كھلاؤ ہى نہ بلكہ وہ تمہارى شريك حيات ہے، اس پر خرچ كرنا بالكل اسى طرح واجب ہے جس طرح تم اپنے آپ پر خرچ كرتے ہو " انتہى
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 3 / 131 ).
چنانچہ آپ كا خاوند آپ كے اخراجات اور نان و نفقہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مكمل اتباع كر رہا ہے، بلكہ آپ كى مخصوص اشياء زيبائش كى خريدارى ميں آپ كے ساتھ احسان پر احسان كر رہا ہے جو اس كى جانب سے زيادہ چيز ہے اور اس سلسلہ ميں آپ كے مال سے كسى بھى قسم كا تعاون نہيں ليا چاہتا، اللہ تعالى اسے اور بركت سے نوازے.
اس ليے ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ احسان كا بدلہ احسان كے ساتھ ديں، اور آپ اپنے خاوند كا مالى تعاون كرنے سے پيچھے مت ہٹيں اور اكتائيں مت، بلكہ كسى نہ كسى طريقہ سے خاوند كا مالى تعاون ضرور كريں، چاہے اس كے كاؤنٹ اور حساب ميں اس كے علم كے بغير مال جمع كر ديں.
يا پھر اپنے خاوند كے علم كے بغير اس كى ضروريات يا گھريلو ضروريات كى اشياء خريد ليں، يا پھر اپنے خاوند كے ليے كوئى قيمتى ہديہ اور تحفہ خريد كر اسے ديں، خاص كر اس كى اہم اشياء، يا پھر آپ مال جمع كر كے ركھيں جو اس كى ضرورت كے وقت كام آئے.
پھر حتى الامكان خاوند كى معاونت كرنے اور مشتركہ اكاؤنٹ ميں رقم جمع كرانے كے بعد بھى آپ كے پاس مال بچ جائے، اور صدقہ و خيرات كے بعد آپ جو رقم بچے اسے اپنے خاص اكاؤنٹ ميں ركھ سكتى ہيں ہو سكتا ہے كبھى اس كى آپ دونوں كو ضرورت پڑ جائے، يا آپ كى اولاد كے كام آئے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب