اگر بيوى نفلى نماز ادا كر رہى ہو اور خاوند بلائے تو كيا بيوى كو نماز توڑ دينى چاہيے يا نہيں ؟
نفلى نماز كے دوران خاوند بلائے تو نماز توڑنے كا حكم
سوال: 161243
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر بيوى نماز ادا كر رہى ہو اور خاوند اسے بلائے تو نماز توڑنے ميں تفصيل پائى جاتى ہے، كيونكہ اس ميں بيوى كو بلائے جانے كى غرض اور ضرورت ديكھى جائيگى:
اول:
اگر خاوند بيوى كو اپنى مدد كے ليے بلا رہا ہے كہ وہ آ كر اسے بچائے يا كسى نقصان اور خطرہ كو دور كرنے كے ليے آواز دے رہا ہے تو اس صورت ميں بيوى كو توڑنى واجب ہو گى، چاہے وہ نفلى نماز ادا كر رہى ہو يا فرضى نماز ميں ہو، يہى نہيں كہ ايسا بيوى ہى كريگى بلكہ ہر وہ شخص جو كسى مدد كے ليے پكارنے والے كو سنے كہ وہ ہلاك ہو رہا ہے تو اسے بچانے كے ليے توڑنا واجب ہے، كيونكہ نماز توڑنے كى خرابى كسى جان چلى جانے سے زيادہ آسان اور كم ہے، اور پھر نماز كى قضاء بھى ہو سكتى ہے، ليكن وہ جان چلى گئى تو واپس نہيں آ سكتى.
عز بن عبد السلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" غرق ہونے والے معصوم افراد كو بچانا اللہ كے ہاں نماز ادا كرنے سے زيادہ افضل ہے، اور پھر ان دونوں كو جمع كرنا بھى ممكن ہے، كہ پہلے غرق ہونے والے كو غرق ہونے سے بچايا جائے اور پھر نماز كى قضاء كر لى جائے، يہ معلوم ہى ہے كہ نماز كى ادائيگى كى جو مصلحت رہ جائے وہ كسى ہلاك ہونے والے مسلمان كى جان بچانے كا مقابلہ نہيں كر سكتى.
اسى طرح اگر كوئى روزے دار رمضان المبارك ميں كسى شخص كو پانى ميں غرق ہوتا ديكھے اور روزہ توڑے بغير اس شخص كو بچانا ممكن نہ ہو، يا پھر كسى مظلم شخص كو ديكھے كہ اسے ظلم سے اسى صورت ميں بچايا جا سكتا ہے جب روزہ توڑا جائے تو وہ روزہ توڑ كر اسے بچائيگا، يہ بھى دووں مصلحتوں كو جمع كرنا ہى ہے كہ پہلے اس جان كو بچايا جائے اور بعد ميں روزہ كى قضاء ميں روزہ ركھ ليا جائے.
اس ليے كہ كسى كى جان بچانا حقوق اللہ ميں شامل ہوتا ہے اور اس ميں حقوق العباد يعنى جس كى جان بچائى جائے اس كا بھى حق ہے اس طرح دو حق اكٹھے ہو جاتے ہيں، اس ليے اسے روزے كى ادائيگى پر مقدم كيا جائيگا، ليكن اصل ميں نہيں " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام ( 1 / 66 ).
بلكہ علماء كرام نے تو صرف جان ہى نہيں بلكہ مال بچانے كى ضرورت كى بنا پر فرضى نماز توڑنے كا بھى حكم بيان كيا ہے، امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى كتاب العمل فى الصلاۃ باب نمبر ( 11 ) ميں باب كا عنوان باندھتے ہوئے كہا ہے:
" جب نماز ميں جانور بدھك جائے " اور قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اگر چور اس كا كپڑا لے جائے تو وہ نماز چھوڑ كر چور كا پيچھا كرے " انتہى
اور علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے اس باب كى شرح كرتے ہوئے نقول ذكر كى ہيں جو ہمارے اس موضوع كے مطابق ہيں ابن رجب كہتے ہيں:
" عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنى كتاب ميں معمر عن الحسن اور قتادہ سے نقل كيا ہے كہ:
ايك شخص نماز ادا كر رہا ہو اور اسے اپنى سوارى كے جانے كا خدشہ ہو يا پھر اس پر وحشى جانور حملہ كر ديں تو كيا كرے ؟
انہوں نے كہا: وہ نماز چھوڑ دے.
اور معمر قتادہ سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نے قتادہ سے دريافت كرتے ہوئے كہا:
ايك شخص نماد ادا كر رہا ہو اور ديكھے كہ بچہ كنوئيں كے كنارے ہيں اور وہ اس ميں گر جائيگا تو كيا وہ نماز توڑ دے ؟
قتادہ رحمہ اللہ نے كہا: جى ہاں وہ نماز توڑ دے.
ميں نے عرض كيا: وہ ديكھے كہ ايك چور اس كا جوتا لے كر جانے لگا ہے ؟
تو قتادہ رحمہ اللہ نے كہا: وہ نماز چھوڑ دے.
اور سفيان رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ: اگر نماز ميں كسى شخص كو كوئى اہم اور عظيم چيز پيش آ جائے تو وہ نماز چھوڑ كر اسے حل كرے " اسے معافى نے سفيان سے روايت كيا ہے.
اسى طرح اگر نمازى كو اپنے جانوروں يا سوارى كا سيلاب ميں بہہ جانے كا خدشہ ہو تو.
امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ:
جس كى سوارى اور جانور بدھك جائے اور قريب ہى نماز ادا كر رہا تو وہ نماز ميں دائيں بائيں چل سكتا ہے، اور اگر دور ہو تو وہ نماز چھوڑ كر اسے جا كر پكڑ لائے.
اور ہمارے اصحاب كا مسلك ہے كہ:
اگر نماز ميں كسى غرق ہونے والے يا آگ ميں جلنے والے شخص كو ديكھے يا دو بچوں كو لڑتا ہوا ديكھے اور وہ اسے زائل كرنے اور بچانے پر قادر ہو تو نماز چھوڑ دے اور انہيں جا كر بچائے.
امام احمد رحمہ اللہ يہ بھى كہتے ہيں:
" اگر ديكھے كہ بچہ كنويں ميں گر جائيگا تو وہ نماز چھوڑ كر اسے پكڑے.
اور امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو برزہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث صحيح بخارى ميں حماد بن زيد عن الزرق كے طريق سے نقل كى ہے اس ميں وارد ہے كہ:
گھوڑا بھاگ گيا تو انہوں نے اپنى نماز چھوڑ كر گھوڑے كا پيچھا كيا اور اسے پكڑ ليا اور لا كر اسے باندھا اور نماز قضاء كى " انتہى
اور احناف كى كتاب در المختار ميں درج ہے:
" غرق ہونے اور آگ ميں جلنے والے شخص كو بچانے كے ليے نماز توڑنى واجب ہے " انتہى
ديكھيں: الدر المختار ( 2 / 51 ).
ابن عابدين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حاصل يہ ہوا كہ جب نمازى دوران نماز كسى كے بچانے كى آواز سنے اگرچہ وہ پكار اور نداء كرنے والے اسے نہيں پكار رہا يا پھر كوئى اجنبى ہو چاہے اسے علم نہ بھى ہو كہ پكارنے والے كو كيا مشكل پيش آئى ہے يا علم بھى ہو اور وہ بچانے كى قدرت اور استطاعت ركھتا ہو تو اس كے ليے نماز چھوڑ كر مدد كرنا واجب ہے، چاہے نماز فرضى ہو يا نفلى " انتہى
ديكھيں: رد المختار ( 2 / 51 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 3878 ) اور ( 134285 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
ليكن اگر خاوند اپنى بيوى كو بغير كسى ضرورت اور ايمرجنسى كے بلا رہا ہو جس ميں تاخير كرنا ممكن ہے تو پھر ہم كہيں گے كہ:
ـ اگر فرضى نماز ميں ہو تو بيوى كے ليے فرضى نماز توڑنا حرام ہے؛ كيونكہ مسلمان پر فرض پورا كرنا واجب ہے اور اس كے علاوہ كسى اور طرف متوجہ نہيں ہوگا، اس ليے كہ خاوند كى بات ماننے سے فرضى نماز توڑنے كى خرابى زيادہ ہے.
ـ ليكن اگر نفلى نماز ادا كر رہى ہو تو خاوند كى بات ماننے كے ليے نفلى نماز توڑنے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں دو قول ہيں:ط
پہلا قول:
شافعيہ اور حنابلہ كے ہاں جائز ہے، كيونكہ ان كے ہاں نفلى نماز توڑنا كراہت كے ساتھ جائز ہے چاہے بغير كسى سبب كے ہى توڑى جائے، اور جب كوئى ضرورت اور سبب پايا جائے تو پھر يہ كراہت بھى ختم ہو جائيگى.
ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جس نے نفلى روزہ يا نماز وغيرہ دوسرے نفلى كام سوائے حج و عمرہ كے شروع كيا تو اسے صحيح حديث كى بنا پر توڑنے كا حق حاصل ہے:
" نفلى روزے والا اپنے آپ كا امير ہے چاہے تو روزہ پورا كر لے اور چاہے تو روزہ توڑ دے "
مسند احمد ( 44 / 463 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 732 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے، ليكن امير نفسہ كے بدلے سنن ميں امين نفسہ كے الفاظ ہيں، نماز وغيرہ ميں اسى سے ہى قياس كيا گيا ہے.
چنانچہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور تم اپنے اعمال كو باطل مت كرو محمد ( 33 ).
يہ فرض ميں ہے، پھر يہ كہ اگر بغير كسى عذر كے ہو تو مكروہ ہے، وگرنہ مثلا مہمان يا ميزبان پر روزہ مشكل ہو جائے تو مكروہ نہيں، بلكہ مسنون ہے اور پچھلے پر اسے ثواب ہو گا مثلا اس نے جو فرض يا نفل بغير كسى عذر كے توڑا " انتہى
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 3 / 459 – 460 ).
اور حنبلى عالم دين البھوتى كہتے ہيں:
" خاوند كے حق كى بنا پر بيوى كو نفل سے نكالنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ واجب ہے، لہذا اسے نفل پر مقدم كيا جائيگا، ليكن فرض پر نہيں " انتہى
ديكھيں: كشاف القناع ( 1 / 379 – 380 ).
دوسرا قول:
احناف اور مالكيہ نے قياس كرتے ہوئے عدم جواز كا كہا ہے؛ كيونكہ ان كے ہاں بغير كسى سبب كے نفل توڑنا حرام ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كرو، اور اپنے اعمال ضائع مت كرو محمد ( 33 ).
انہوں نے اس سے صرف والدين كو استثناء كيا ہے كہ اگر والدين اپنے بيٹے كو بلائيں اور وہ نماز ميں ہو تو بيٹے كے ليے نفلى نماز توڑنى جائز ہے، ليكن احناف اور مالكيہ نے ايسى شروط لگائى ہيں، طوالت كى بنا پر ہم انہيں ذكر نہيں كر سكتے.
ان كے ہاں صرف بيٹے كو بات ماننا جائز ہے، ليكن بيوى كو كسى نے استثناء نہيں نہ تو مالكيہ نے اور نہ ہى احناف نے.
ہمارى اسى ويب سائٹ پر پہلے قول كو اختيار كيا گيا ہے كہ ضرورت كى بنا پر نفلى نماز توڑى جا سكتى ہے، اور والدين كا بلانا بھى ضرورت ہے، اور اسى طرح خاوند كا اپنى بيوى كو طلب كرنا بھى "
مزيد آپ سوال نمبر ( 26230 ) اور ( 151653 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور عورت كو نفلى نماز توڑنے كى رخصت كى تقويت اس صورت ميں بھى ملتى ہے كہ اگر خاوند معذرت اور معافى قبول كرنے والا نہ ہو اور اپنى بيوى پر رحم نہيں كرتا، بلكہ چھوٹى سے بات پر مشكلات پيدا كر دينے والوں ميں شامل ہوتا ہو تو ہم اس صورت ميں بيوى كو يہى كہيں گے كہ تم اپنى نفلى نماز توڑ دو اس ميں كوئى حرج نہيں "
ديكھيں: الشرح الممتع للشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ ( 6 / 487 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات