ايك لڑكى كى اس كے والد نے ايسے شخص سے شادى پر مجبور كيا جس سے وہ شادى كى رغبت نہيں ركھتى تھى، تو كيا يہ نكاح صحيح ہوگا يا نہيں ؟
اور اگر يہ لڑكى اپنے خاوند كو قريب نہ آنے دے اور وہ اسے مجبور كر كے جماع كرے تو اس مباشرت كا حكم كيا ہے اور كيا اسے زنا شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟
والد نے شادى پر مجبور كيا تو كيا نكاح صحيح ہو گا اور اس حالت ميں كيے گئے جماع كا حكم كيا ہے
سوال: 163990
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عورت اگر كسى مرد كے ساتھ شادى كى رغبت نہيں ركھتى اور اس سےشادى نہيں كرنا چاہتى تو اس كے ولى كے ليے اس شخص كے ساتھ شادى پر مجبور كرنا حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كنوارى لڑكى كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6968 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).
اس حديث كا ظاہر ہر كنوارى عورت اور ہر ولى كو شامل ہے اس ميں باپ وغيرہ كا كوئى فرق نہيں ہوگا، اسى ليے امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے: " باپ وغيرہ كنوارى اور ثيب ( جس كى پہلے شادى ہو چكى تھى اور اب وہ خاوند كے بغير ہو ) كى شادى ان دونوں كى رضامندى كے بغير نہيں كر سكتا "
عورت كے ولى كو چاہيے كہ وہ اپنى بيٹيوں كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرتے ہوئے ايسے افراد سے ان كى شادى مت كرے جسے وہ پسند نہ كرتى ہوں اور پھر وہ ان كا كفو يعنى برابرى كا رشتہ ہونا چاہيے، كيونكہ وہ لڑكى كى مصلحت كى خاطر شادى كر رہا ہے نہ كہ اپنى مصلحت كى خاطر.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لڑكى كى ناپسنديدگى كى حالت ميں اس كا نكاح كرنا اصول اور عقل كے بھى منافى ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كے ولى كے ليے عورت كى اجازت كے بغير خريد و فروخت كرنا جائز نہيں كيا، اور نہ ہى وہ كھانا پينا اور لباس جسے وہ نہيں چاہتى پر مجبور كرنا جائز نہيں كيا تو پھر اسے ايسے شخص كے ساتھ مباشرت و مجامعت كرنے پر كيسے مجبور كيا جا سكتا ہے جسے وہ پسند نہيں كرتى اور چاہتى نہيں!
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كےمابين محبت و مودت اور الفت پيدا كى ہے، تو اگر يہ بيوى اپنے خاوند سے نفرت ركھتى ہو اور اسے ناپسند كرے تو يہاں كونسى محبت و مودت اور الفت ہو گى ؟!! انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 25 ).
دوم:
اگر مجبور كر كے عقد نكاح كر ديا گيا تو يہ عقد نكاح عورت كى اجازت پر موقوف ہوگا، اگر عورت اجازت ديتى ہے اور رضامند ہو جاتى ہے تو يہ عقد نكاح صحيح ہوگا، اور اگر اجازت نہيں ديتى تو يہ عقد نكاح فاسد ہوگا.
بريدہ بن حصيب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگى ميرے والد نے ميرى شادى اپنے بھيتجے سے كر دى ہے تا كہ اس كا خسيس پن دور كرے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاملہ كو اس لڑكى پر چھوڑ ديا تو وہ لڑكى كہنے لگى: ميرے والد نے جو كيا ميں نے اس كى اجازت دى، ليكن ميں يہ چاہتى تھى كہ عورتوں كو يہ علم ہو جائے كہ اس معاملہ ميں باپوں كو كچھ حاصل نہيں "
سن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1874 ) بوصيرى رحمہ اللہ نے مصباح الزجاجۃ ( 22 / 102 ) ميں صحيح قرار ديا ہے، اور اسى طرح شيخ مقبل الوادعى رحمہ اللہ نے بھى كہا ہے كہ يہ مسلم كى شرط پر ہے.انتہى
ديكھيں: الصحيح المسند ( 160 ).
اور اگر عورت يہ نكاح جائز قرار نہ دے اور اسے جارى نہ ركھے تو يہ نكاح فاسد ہوگا، اسے چاہيے كہ جس كے ساتھ اس كا نكاح ہوا ہے اسے بتا دے، اور اس كے ساتھ نكاح كرنے والے كو جماع اور مباشرت پر مجبور كرنے كا حق نہيں ہے.
جب وہ عورت اس شادى پر راضى نہيں تو پھر وہ اپنے خاوند كو اپنے سے جماع اور مباشرت نہ كرنے دے.
اس نكاح كے فاسد ہونے كے باوجود اس لڑكى كو طلاق دينے پر ہى ثابت يا پھر نكاح مقرر ہوگا، يا پھر عدالت كے فيصلہ كرنے پر، كيونكہ اس نكاح كے صحيح ہونے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور بہت سارے علماء اسے جائز قرار ديتے ہيں.
اس ليے آپ كو اپنا معاملہ شرعى عدالت ميں قاضى كے پاس اٹھانا چاہيے تا كہ وہ اس نكاح كے فسخ كا حكم صادر كرے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ناپسنديدگى اور جبر كى حالت ميں كيے گئے نكاح كا اسلام ميں حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر وہ عورت اس شادى پر راضى نہيں تو وہ اپنا معاملہ عدالت ميں پيش كرے تا كہ اس كا عقد نكاح ثابت يا فسخ ہو سكے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 /126 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق يہ نكاح فاسد ہے ليكن صحيح اور فاسد ہونے كے اختلاف سے نكلنے كے ليے وہ كسى اور سے شادى اسى صورت ميں كر سكتى ہے جب وہ اسے طلاق دے دے، يا پھر شرعى عدالت كے ذريعہ قاضى اس كا نكاح فسخ كر دے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 20 / 411 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ہم كہيں كہ نكاح صحيح نہيں تو پھر اسے ضرور فسخ كرنا چاہيے؛ كيونكہ يہ صحيح نہيں، ليكن اگر ہم يہ فرض كريں كہ عورت اس شخص كے پاس چلى گئى اور وہ شخص اس عورت كو پسند آگيا اور اس نے عقد نكاح جائز كر ديا تو اس ميں كوئى حرج نہيں، عورت كى اجازت كى بنا پر يہ نكاح صحيح ہو گا " انتہى
ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 1 / 343 ).
سوم:
اگر مجبور كر كے جماع اور مباشر ہو جائے توشر معنوں ميں زنا شمار نہيں ہوگا؛ كيونكہ ان كے عقد نكاح ميں شبہ پايا جاتا ہے، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے اس نكاح كے صحيح ہونے ميں اختلاف ہے، اگرچہ اس شخص كے ليے ايسا كرنا حرام تھا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ ايسى عورت سے دخول كرے جس كا نكاح جبرا كيا گيا ہو؛ كيونكہ يہ نكاح صحيح نہيں ہے " انتہى
ماخوذ از: اللقاء الشھرى ( 1 / 343 ).
بہر حال جب وہ مجبور ہے يعنى اس پر جبر كيا گيا ہے تو وہ گنہگار نہيں، اور اسے دو چيزوں ميں ايك كا اختيار ہے: وہ اس خاوند كو تسليم كرتے ہوئے اس پر راضى ہو جائے، يا پھر وہ اس كے ساتھ رہنے سے انكار كا اعلان كردے، اور شرعى عدالت اور قاضى كے ذريعہ سے اس نكاح كو فسخ كرنے كى كوشش كرے.
مزيد معلومات حاصل كرنے كے ليے سوال نمبر ( 105301 ) اور ( 47439 ) اور ( 138734 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات