ايك عورت كا آپريشن كر كے اس كا رحم بالكل ختم كر ديا گيا، تو كيا اگر خاوند اسے طلاق دے دے يا پھر فوت ہو جائے تو كيا اس پر عدت گزارنا واجب ہوگى ؟ اگر واجب ہے تو كس ليے ؟
آپريش كے ذريعہ رحم ختم كرنے والى عورت كى عدت
سوال: 164587
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر اس عورت كا خاوند فوت ہو جائے تو اس پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے؛ كيونكہ يہ بھى اللہ سبحانہ و تعالى كے درج ذيل فرمان ميں داخل ہے:
اور تم ميں سے جو لوگ فوت كيے جائيں اور بيوياں چھوڑ جائيں وہ بيوياں اپنے آپ كو چار مہينے دس دن روكے ركھيں البقرۃ ( 234 ).
اور طلاق ہونے كى صورت ميں اسے تين ماہ عدت گزارنا ہوگى؛ كيونكہ وہ حيض والى عورتوں ميں شامل نہيں ہوتى اس ليے كہ وہ اللہ تعالى كے درج ذيل عمومى فرمان ميں داخل ہوتى ہے:
اور وہ عورتيں جو تمہارى عورتوں ميں سے حيض سے نااميد ہوچكى ہيں، اگر تم شك كرو تو ان كى عدت تين ماہ اور ان كى بھى جنہيں حيض نہيں آيا الطلاق ( 4 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر عورت كا كسى سبب كے باعث حيض ختم ہو جائے اور علم ہو كہ حيض نہيں آئيگا مثلا عورت كا رحم ختم كر ديا گيا ہو تو يہ حيض سے نااميد عورت كى طرح ہى ہوگى اور تين ماہ عدت گزارےگى ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 3 / 311 ).
رحم نكال ديے جانے كى بنا پر ہم براءت رحم كو تو ختم كر سكتے ہيں؛ ليكن اس پر عدت واجب ہونے ميں تو مانع نہيں ہو سكتا؛ كيونكہ عدت كى حكمت صرف برات رحم معلوم كرنا ہى نہيں ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عدت سے صرف برات رحم ہى مقصود نہيں بلكہ يہ تو عدت كے بعض مقاصد اور حكمت ميں سے ايك حكمت ہے ” انتہى
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 2 / 51 ).
ابن قيم رحمہ اللہ اسى كتاب ميں عدت كى كچھ حكمتوں كا ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:
” عدت مشروع كرنے ميں كئى ايك حكمتيں پائى جاتى ہيں جن ميں ايك حكمت تو برات رحم ہے كہ يہ علم ہو جائے كہ آيا كہيں حمل تو نہيں؛ تا كہ دو شخص كى وطئ سے ايك ہى رحم ميں دو آدميوں كا نطفہ جمع نہ ہو اور نسب مختلط ہو كر نسب ميں خرابى پيدا ہو جائے، اس ميں ايسى خرابى ہے جسے شريعت اور حكمت دونوں ہى روكتى ہيں.
اور ايك حكمت يہ بھى ہے كہ اس عقد نكاح كا مقام اور مرتبہ اور قدر و شان كى عظمت بيان كرنا اور اس كے شرف كا اظہار كرنا.
اور ايك حكمت يہ بھى ہے كہ طلاق دينے والے شخص كے ليے رجوع كرنے كا وقت زيادہ و طويل كرنا تا كہ وہ رجوع كر سكے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے خاوند نادم ہو اور اسے اتنا وقت و موقع مل جائے كہ وہ اس دوران بيوى سے رجوع كر سكے.
اور اس ميں ايك حكمت يہ بھى ہے كہ خاوند كى موت كى حالت ميں خاوند كا حق پورا كرنا، زيب و زينت ترك كر كے اپنے اوپر خاوند كى فوتگى كا اثر ظاہر كرنا، اسى ليے شريعت مطہرہ نے بيوى كے ليے اولاد اور باپ سے زيادہ سوگ كى مدت ركھى ہے.
اور اس ميں ايك حكمت يہ بھى ہے كہ خاوند كے حق كى احتياط اور بيوى كى مصلحت پائى جاتى ہے، اور بچے كا حق پايا جاتا ہے، اور اللہ كے واجب كردہ حق كى ادائيگى ہے، اس ليے عدت ميں چار حق پائے جاتے ہيں ” انتہى
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 2 / 50 – 51 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب