سوال: میں اور ایک بھائی نے خواتین کے جوتے فروخت کرنے کیلئے دکان میں سرمایہ کاری کی، اس کیلئے معاہدہ یہ طے پایا کہ میری طرف سے 10000 ڈالر سرمایہ ہوگا، اور اس کی دکان ہوگی، اور اس دکان کی مالیت بھی مارکیٹ میں 10000 ڈالر تھی چنانچہ نفع یا نقصان میں برابر کے شریک ہونگے، لیکن چار ماہ کے بعد ہمیں خسارہ اٹھانا پڑا ، اب میرا شریک یہ کہتا ہے کہ میں خسارہ برداشت نہیں کرونگا کیونکہ یہ معاہدہ مضاربت کا تھا، شراکت کا نہیں تھا، اب وہ میرے ساتھ خسارہ برداشت نہیں کر رہا، میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ شراکت تھی یا مضاربت؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
دونوں نے مل کر سرمایہ کاری کی، جس میں محنت صرف ایک شخص کی ہوگی، تو خسارہ کی صورت میں خسارہ کس پر ہوگا؟
سوال: 165923
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مضاربت بھی شراکت ہی کی ایک قسم ہے، اور اس میں یہ ہوتا ہے کہ ایک فریق سرمایہ لگاتا ہے اور دوسرا فریق محنت کرتا ہے۔
اور اگر دونوں کی طرف سے سرمایہ اور محنت ہو تو اسے فقہی اصطلاح میں “شراکتِ عنان” کہتے ہیں۔
اور اگر سرمایہ فریقین کی طرف سے ہو اور محنت ایک فریق کرے تو اسی بھی کچھ فقہائے کرام شراکتِ عنان ہی شمار کرتے ہیں، جبکہ دیگر فقہائے کرام کے ہاں کم از کم اس میں مضاربت اور عنان دونوں پائے جاتے ہیں، چنانچہ کچھ اہل علم نے شراکت عنان کے درست ہونے کیلئے یہ شرط لگائی ہے کہ سرمایہ لگا کر ساتھ میں محنت کرنے والے کو دوسرے فریق سے زیادہ منافع ملنا چاہیے، اگرچہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ شرط ضروری نہیں ہے۔
چنانچہ “الروض المربع” میں شراکتِ عنان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
“دو یا دو سے زیادہ لوگ اپنے مساوی یا غیر مساوی سرمایہ کیساتھ محنت میں بھی شریک ہوں، یا پھر دونوں میں سے ایک سرمایہ لگانے کے ساتھ محنت بھی کرے تو اسے دوسرے کی بہ نسبت زیادہ منافع ملے گا، اور اگر اسے زیادہ منافع نہ ملے تو یہ شراکت درست نہیں ہوگی” انتہی مختصراً
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر معاہدے میں کوئی یہ کہے کہ دونوں محنت نہیں کرینگے بلکہ کوئی ایک کریگا تو اس کے بارے میں الروض المربع کے مطابق یہی ہے کہ یہ بھی شراکت عنان میں شامل ہے، تاہم صاحب کتاب کے مطابق یہ شراکت عنان نہیں ہے، البتہ یہ بات واضح ہے کہ اس صورت میں شراکت عنان اور مضاربت دونوں کیساتھ مشابہت ہے، کیونکہ سرمایہ کاری کیساتھ محنت کو بھی دیکھیں تو یہ شراکت عنان ہے، اور اگر دوسرے کو دیکھیں جو سرمایہ کاری کیساتھ محنت نہیں کر رہا تو اس میں مضاربت کیساتھ مشابہت ہے، تو اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: یہ صورت مضاربت اور شراکت عنان کی مخلوط شکل ہے، چنانچہ ایسی شراکت کی صورت میں سرمایہ کاری سمیت محنت کرنے والے کو زیادہ منافع ملنا چاہیے؛ تا کہ مضاربت کی شکل بھی اس میں پائی جائے، مثال کے طور پر آپ نے ایک لاکھ اور آپ کے شریک نے دس ہزار کاروبار میں لگائے، اور آپ نے شریک سے کہہ دیا کہ محنت صرف تم ہی کرو گے کیونکہ میں محنت کی استطاعت نہیں رکھتا تو منافع آدھا آدھا کر لیں گے، تو یہ بات درست نہیں ہے، محنت کرنے والے کو لازمی طور پر زیادہ منافع ملنا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنے سے جس نے صرف سرمایہ کاری کی اسے تو اپنے سرمائے کا پورا نفع مل جائے گا، لیکن جس نے سرمایہ لگانے کے ساتھ محنت بھی کی اسے اپنی محنت کا پھل نہیں ملے گا صرف سرمائے کا نفع ملے گا، اور اس طرح سے اس کی محنت بالکل رائیگاں جائے گی۔
لیکن میرا موقف یہ ہے کہ اس صورت میں منافع نصف نصف کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اگر محنت نہ کرنے والے شریک کو اس کے سرمائے کا مکمل نفع دے دیا جائے تو یہ محنت کرنے والے شریک کی جانب سے احسان ہوگا، اور احسان کو کون منع کہتا ہے؟! کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ میں اسے اپنا مال مضاربت کیلئے دوں اور منافع سارے کا سارا مجھے ہی مل جائے، اور محنت کرنے والا مجھ سے محنت کا معاوضہ نہ لے، بلکہ احسان کرتے ہوئے چھوڑ دے!
اس لیے درست بات یہی لگتی ہے کہ سرمائے کے مطابق منافع دینا جائز ہے، اس صورت میں محنت کرنے والا اپنے شریک سے محنت کا معاوضہ وصول نہ کرنے پر احسان کرے گا۔” انتہی
“الشرح الممتع” (9/ 403)
بہر حال اسے شراکت عنان کا نام دیں یا مضاربت و عنان کی مخلوط صورت کہیں ہر دو صورت میں فریقین پر خسارہ سرمائے کے مطابق ہوگا، اور یہ عام مشہور قاعدہ ہے، چنانچہ دو شریکوں نے مالی شراکت قائم کی تو خسارہ مال کی مقدار کے برابر ہی ہوگا، چنانچہ اگر دونوں نے یکساں سرمایہ کاری کی تو ان میں خسارہ بھی یکساں ہی تقسیم ہوگا۔
جبکہ مضاربت میں ایسا ہوتا ہے کہ سرمایہ ایک فریق کا اور محنت دوسرے فریق کی ہوتی ہے، تو اس صورت میں خسارہ سرمایہ کار کا ہوگا، [اور محنت کرنے والے کی محنت ضائع ہوگی]
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (5/ 22) میں کہتے ہیں:
“تجارتی شراکت میں سرمایہ کاری کے مطابق خسارہ تقسیم ہوگا، چنانچہ اگر دونوں کی سرمایہ کاری یکساں مقدار میں تھی تو خسارہ بھی دونوں میں یکساں تقسیم ہوگا، اور تہائی سرمایہ کاری تھی تو خسارہ بھی تہائی برداشت کریگا، اس اصول کے بارے میں ہم اہل علم کا کوئی دوسرا موقف نہیں جانتے، اسی موقف کے ابو حنیفہ ، شافعی اور دیگر اہل علم قائل ہیں ۔۔۔
جبکہ مضاربت کی صورت میں خسارہ صرف سرمایہ کار پر ہوگا، محنت کرنے والے پر خسارے کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، کیونکہ خسارہ اصل میں رأس المال پر اثر انداز ہوتا ہے، اور یہ صرف اور صرف مالک رأس المال پر ہی ہوگا، جبکہ محنت کرنے والے کو مالی نقصان کا متحمل قرار نہیں دیا جائے گا[کیونکہ محنت کرنے والے کی محنت ضائع ہوچکی ہے، اس لیے اسے دہرا نقصان نہیں دیا جائے گا] ہاں البتہ اگر نفع ہو تو دونوں میں تقسیم ہوگا۔” انتہی
اسی طرح “الموسوعة الفقهية” (44/ 6) میں ہے کہ:
“تجارتی شراکت کے بارے میں تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ خسارہ تمام شرکاء پر ان کی سرمایہ کاری کے تناسب سے ڈالا جائے گا، چنانچہ شراکت میں تجارتی خسارے کے متعلق اس کے علاوہ کوئی شرط لگانا درست نہیں ہے، چنانچہ ابن عابدین نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ: “سرمایہ کاری کے تناسب سے ہٹ کر خسارہ ڈالنے کی کوئی بھی شرط لگانا باطل ہے۔
اسی طرح علمائے کرام کا اس بارے میں بھی اتفاق ہے کہ مضاربت میں محنت کرنے والے پر خسارے کا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں ڈالا جائے گا، چنانچہ خسارہ صرف سرمایہ کار کا ہوگا، لیکن منافع میں دونوں متفقہ شرائط کے مطابق شریک ہونگے۔
تاہم فقہائے کرام نے یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مضاربت میں پہلے فائدہ ہوا اور بعد میں نقصان ہو گیا تو مضاربت جاری رہنے کی صورت میں خسارہ پورا کرنے کیلئے پہلے حاصل شدہ منافع میں سے کٹوتی کی جائے گی” انتہی
خلاصہ یہ ہے کہ :
خسارہ آپ دونوں میں یکساں تقسیم ہوگا، چاہے آپ کے اس تجارتی معاہدے کو شراکت عنان کہیں یا عنان و مضاربت کی مخلوط صورت کہیں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب