میں 16 سالہ نوجوان لڑکی ہوں اور میں ابھی سے اپنی ملازمت کا شعبہ متعین کرنا چاہتی ہوں، میرے والد چاہتے ہیں کہ میں ٹیکنیکل فیلڈ میں کام کروں جبکہ میں میڈیکل میں جانا چاہتی ہوں؛ کیونکہ طبی شعبے میں فتنے نہیں ہوں گے اس لیے کہ میرے پاس آنے والے تمام مریض عورتیں ہی ہوں گی، اور طبی شعبے میں تعلیم مکمل کرنے کے لیے امکان ہے کہ مجھے مرد و زن کے اعضائے مخصوصہ کو دیکھنا پڑے یا چھونا پڑے، تو کیا طبی تعلیم میرے لیے جائز ہے؟ یا مجھے کسی اور شعبے میں چلے جانا چاہیے؟ اور صورت حال یہ ہے کہ طبی شعبے کے علاوہ شریعت کے مطابق مجھے اپنے لیے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
کیا لڑکی میڈیکل کی تعلیم حاصل کر سکتی ہے؛ کیونکہ اس میں ستر پر نگاہ بھی پڑتی ہے اور اسے چھونا بھی پڑتا ہے۔
سوال: 169979
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس بات میں بالکل بھی دو رائے نہیں ہیں کہ مسلم معاشروں کو خاتون معالج اور لیڈی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے جو کہ مسلمان خواتین کا چیک اپ کریں اور ان کا علاج معالجہ کریں، بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہیں اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کا چیک اپ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں کوئی لیڈی ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی، صرف مرد ڈاکٹر ہی ملتے ہیں! اس لیے مسلمان لڑکیوں کی جانب سے اس عظیم شعبے میں جانا شریعت کے ایک بہت بڑے ہدف کو پورا کرتا ہے۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” بلا شبہ اہل علم کے مطابق طبی شعبے میں تعلیم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے؛ کیونکہ لوگوں کی طبی اور علاج معالجے کی ضروریات اسی صورت میں پوری ہوں گی، اور جس کام کے بغیر مسلمانوں کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو ں تو وہ فرض کفایہ ہو تا ہے، چاہے وہ کام بنیادی طور پر عبادات میں نہ بھی شامل ہو، اسی لیے علمائے کرام مسلمہ قواعد اور اصولوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ: “ایسی خدمات جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ان کی فراہمی فرض کفایہ ہے۔” مثلاً: اشیائے ضرورت تیار کرنا، بڑھئی کا کام کرنا، لوہار کا کام سیکھنا وغیرہ؛ تو اگر کوئی بھی مسلمان یہ کام نہیں کرتا تو یہ مسلمانوں پر فرض کفایہ ہو جائے گا۔
اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ: اسلامی ممالک میں مسلمان بچوں کو چاہیے کہ وہ بھی طبی شعبے میں آگے آئیں تا کہ طبی شعبے میں عیسائیوں اور دیگر غیر مسلم اطبا سے خلاصی پائی جا سکے۔ ” ختم شد
” فتاوى نور على الدرب ” ( کیسٹ نمبر: 9 )
اصولی طور پر میڈیکل کی طالبات کو چاہیے کہ وہ غیر مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کریں، اور ایسے ادارے میں جائیں جہاں پر سنجیدہ علمی ماحول ہو، اسی طرح مسلمان طالبہ پر یہ بھی ضروری ہے کہ شرمگاہ کی طرف دیکھنے اور انہیں چھونے سے متعلق اور دیگر درسی امور کے بارےمیں شرعی احکامات کو مد نظر رکھے۔ کسی بھی مسلمان طالبہ کے لیے صرف تعلیمی سرگرمیوں کی حد تک شرمگاہ کو دیکھنا اور چھونا جائز ہے، ان کے بارے میں اصل بنیادی حکم یہی ہے کہ کسی کی شرمگاہ کو دیکھنا یا چھونا ناجائز ہے، اور اب چونکہ طبی تعلیم نظریات اور عملیات دونوں کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے شرعی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان لیڈی ڈاکٹرز کی موجودگی میں مسلمان طالبہ کے لیے مرد یا خواتین کی شرمگاہ کو دیکھنا اور انہیں صرف تعلیم کی غرض سے چھونا جائز ہے، اس مسئلے میں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے یکساں حکم ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“ایک لڑکا میڈیکل کالج میں زچگی اور زنانہ امراض کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، اور عملی طور پر ایسی صورت حال میں سے طالب علم کو لازمی گزرنا پڑتا ہے جس میں طالب علم خواتین کے ستر کو دیکھتا ہے، خواتین کے ستر کو دیکھنا اس سبجیکٹ میں پاس ہونے کے لیے ضروری ہے، اس کے بعد ہی طالب علم اگلے مرحلے میں جاتا ہے، اس سے ہمیں بڑی کوفت ہوتی ہے، تو ہم آپ سے اس مسئلے میں فتوی جاری کرنے کے درخواست گزر ہیں۔”
اس پر انہوں نے جواب دیا:
“بنیادی طور پر مرد یا عورت کے ستر کو ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے، مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، جبکہ آزاد عورت ساری کی ساری ہی ستر ہے، سوائے دوران نماز اور احرام میں چہرے اور ہاتھوں کے ، اور اگر عورت کسی ایسی جگہ ہے جہاں پر نماز پڑھتے ہوئے یا حج یا عمرے کے احرام کے وقت غیر محرم لوگوں کی اس پر نظر پڑ سکتی ہے تو اس پر چہرے اور جسم کو ڈھانپنا ضروری ہےچاہے عورت نماز میں ہو یا حج یا عمرے کا احرام باندھے ہوئے ہو۔
تاہم اگر ضرورت ہو تو شرمگاہ سے پردہ ہٹایا جا سکتا ہے، اسی طرح اگر شرعی مصلحت کا تقاضا ہو تو شرمگاہ کو دیکھا بھی جا سکتا ہے، اسی شرعی مصلحت میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ میڈیکل کی طالبات اور طلبہ زچگی اور زنانہ امراض کے متعلق تعلیم لیتے ہوئے آپریشن کے دوران شرمگاہ دیکھیں، اس لیے کہ انہیں اس سبجیکٹ میں کامیاب تبھی تصور کیا جاتا ہے جب وہ عملی طور پر اس مرحلے سے گزریں، اور تبھی اگلے مرحلے میں منتقل ہو سکتے ہیں، اس کے بعد ہی میڈیکل کی طالبات اور طلبہ طبی ماہر بنتے ہیں۔
یہاں شرمگاہ کو دیکھنے کے لیے جواز مہیا کرنے والی شرعی مصلحت یہ ہے کہ اتنی تعداد میں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں طبی ماہر بن جائیں کہ مسلمانوں کی ضرورت پوری ہو، اگر شرمگاہ کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تو اس سے غیر مسلم طبی ماہرین کو مسلم ممالک میں لانا پڑے گا، اور اس کی وجہ سے بہت زیادہ خرابیاں لازم آتی ہیں، جبکہ شریعت کے مقاصد میں ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے مفادات کو تحفظ ملے اور نقصانات یا خرابیاں کم سے کم ہوں۔
الشیخ عبد العزیز بن باز، الشیخ عبد الرزاق عفیفی ، الشیخ عبد اللہ غدیان۔” ختم شد
” فتاوى اللجنة الدائمة ” ( 24 / 411 ، 412 )
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ:
طبی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شرمگاہ کی طرف دیکھنا جائز ہے؛ کیونکہ شرمگاہ کو دیکھنے کی حرمت کا تعلق حرام کام کے وسائل کو حرام قرار دینے سے ہے، اب جو کام بھی اس طرح حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ ضرورت کے وقت جائز ہو جاتا ہے، اب مسلم معاشروں کو لیڈی ڈاکٹرز کی ضرورت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس لیے طبی شعبے کے طلبہ اور طالبات کے لیے طبی مہارت حاصل کرنے کے لیے شرمگاہ کی طرف دیکھنا جائز ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“مرض کے اسباب اور نوعیت جاننے کے لیے عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے؟ اور ایسے میں طلبہ کے لیے کیا حکم ہو گا جن کے سامنے مریض خواتین کی شرمگاہ کو سکھانے کی غرض سے کھول دیا جاتا ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
” طبی مصلحت اور مرض کی تشخیص وغیرہ کی بنا پر کسی عورت کے ایسے حصے کو کھولنا جس کو ڈھانپ کر رکھنا واجب ہے؛ اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ ضرورت کی بنا پر کیا جا رہا ہے، اور ضرورت کی وجہ سے اس طرح کے حرام کام جائز ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ اہل علم کے ہاں معروف اصول اور ضابطہ ہے کہ: “ایسا کام جسے کسی حرام کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے حرام قرار دیا جائے تو وہ ضرورت کی بنا پر حلال ہو جاتا ہے، اور ایسا کام جسے ذاتی نوعیت کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہو وہ انتہا درجے کی ضرورت کی بنا پر حلال ہوتا ہے۔” اس قاعدے کی اہل علم نے متعدد مثالیں ذکر کی ہیں،مثلا: ضرورت کی بنا پر عورت کے کسی ایسے حصے کو دیکھنا جائز ہے جسے عام حالات میں دیکھنا جائز نہیں، اسی طرح نکاح کی مصلحت کی بنا پر منگنی کرنے والے کے لیے لڑکی کے ایسے حصے کو بھی دیکھنا جائز ہے جسے عام حالت میں دکھانا جائز نہیں ہے، بالکل یہی صورت سائل کے سوال میں ہے؛ چنانچہ مرد طبیب عورت کا پردہ مرض کی نوعیت اور تشخیص کی غرض سے ہٹا سکتا ہے۔” ختم شد
” فتاوى نور على الدرب ” ( کیسٹ نمبر: 9 )
خلاصہ یہ ہے کہ: تعلیمی اور پیشہ ورانہ ضروریات کی وجہ سے شرمگاہ انہی دونوں مقاصد کے دائرے میں رہتے ہوئے دیکھنا یا چھونا جائز ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب