بعض لڑكياں اسلامك سينٹر جا كر دعوى كرتى ہيں كہ اس كا ولى اس كى شادى نہيں كرتا ( اس كا رشتہ ٹھكرا رہا ہے حالانكہ وہ اس رشتہ كو پسندكرتى ہے ) تا كہ اس ولى كى بجائے كسى اور كو ولى بنا كراس كى شادى كى جائے، يا پھر اگر اس كا كوئى اور ولى نہيں تو اسلامك سينٹر كا چئرمين ولى بن كر شادى كرے.
بعض اوقات ہو سكتا ہے اسلامك سينٹر كا چئرمين اس كے لڑكى كے ساتھ نرم رويہ اختياركرتے ہوئے بغير تحقيق كيے ہى اس كى شادى كر دے، جس كے نتيجہ ميں لڑكى كے اولياء يا پھر خاوند اور لڑكى كے ولى كے مابين مشكلات پيدا ہو جائيں، برائے مہربانى اس كے متعلق حكم كيا ہے ؟
لڑكى كا ولى كب عاضل شمار ہوگا اور اس سے دوسرے ولى ميں ذمہ دارى كب منتقل ہو گى ؟
سوال: 171588
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ولى پر لازم ہے كہ اگر اس كى ولايت ميں موجود لڑكى كا مناسب اور برابرى كا رشتہ آئے جسے سے وہ شادى كرنے پر راضى ہو تو وہ اس كى شادى كر دے، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو عاضل يعنى لڑكى كو شادى سے روكنے والا شمار ہو گا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” العضل كا معنى يہ ہے كہ: عورت كو اس كے مناسب اور برابرى كا رشتہ آنے اور عورت كے رشتہ كرنے كے مطالبہ كے باوجود اسے شادى سے منع كيا جائے، اور عورت اور اس كے ليے آنے والا رشتہ دونوں ايك دوسرے كى رغبت ركھتے ہوں…
چاہے عورت اس شادى كے ليے مہر مثل يا اس سے كم طلب كرتى ہو، امام شافعى اورابو يوسف اور محمد رحمہم اللہ كا قول يہى ہے، اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے كہ: مہر مثل سے كم پر شادى كرنا چاہے تو ولى كو اسے شادى كرنے سےمنع كرنے كا حق حاصل ہے…
اگر عورت كسى بعينہ شخص جو كہ اس كے ليے مناسب اور برابرى كا رشتہ ہو ميں رغبت ركھے اور اس كا ولى اس لڑكى كا كسى اور كے ساتھ رشتہ كرنا چاہے جو اس كے ليے مناسب اور برابرى كا نہيں، جس سے لڑكى شادى كرنا چاہتى ہے وہ اس سے شادى نہيں كرتا تو وہ ولى عاضل يعنى شادى سے روكنے والا كہلائيگا.
ليكن اگر لڑكى كسى ايسے شخص سے شادى كرنا چاہتى ہو جو اس كا كفو اور برابر كا نہيں تو پھر ولى كو اس سے شادى كرنے سے روكنے كا حق حاصل ہے، اس صورت ميں وہ عاضل يعنى شادى سے روكنے والا نہيں كہلائيگا ” انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 383 ).
عورت كو شادى سے روكنا حرام ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جب تم عورتوں كو طلاق دے دو اور وہ اپنى عدت پورى كرليں تو انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے سے مت روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں، يہ نصيحت انہيں كى جاتى ہے جنہيں تم ميں سے اللہ تعالى پر اور قيامت كے دن پر يقين و ايمان ہو، اس ميں تمہارى بہترين صفائى اور پاكيزگى ہے، اللہ تعالى جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 232 ).
امام بخارى رحمہ اللہ نے حسن رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ كى بہن كى ايك شخص كے ساتھ شادى ہوئى تو اس شخص نے اسے طلاق دے كر اسے چھوڑ ديا حتى كہ اس كى عدت بھى گزر گئى، اور پھر اس كا رشتہ مانگا تو معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ اس سے ناراض ہوئے اور كہنے لگے:
اسے ركھنے كى استطاعت ہوتے ہوئے چھوڑ ديا، اور اب پھر اس كا رشتہ مانگ رہا ہے، تو انہوں نے اس كا رشتہ دينے سے انكار كر ديا، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:
اور جب تم عورتوں كو طلاق دے دو اور وہ اپنى عدت پورى كرليں تو انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے سے مت روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں، يہ نصيحت انہيں كى جاتى ہے جنہيں تم ميں سے اللہ تعالى پر اور قيامت كے دن پر يقين و ايمان ہو، اس ميں تمہارى بہترين صفائى اور پاكيزگى ہے، اللہ تعالى جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 232 ).
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ كو بلايا اور يہ آيت ان كے سامنے تلاوت فرمائى، تو انہوں نے اپنى ناراضگى چھوڑ كر اللہ كے حكم كے سامنے سرتسليم خم كر ديا “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5331 ).
اس بنا پر عورت كے ولى كے ليے مناسب اور كفو و برابرى كا رشتہ جس پر عورت راضى بھى ہو سے شادى كرنے سے روكنا جائز نہيں ہے.
اصل ميں ولى اپنى ذمہ دارى ميں موجود عورت كى مصلحت پر حريص ہوتا ہے، اس ليے ہو سكتا ہے وہ اس رشتہ كو كئى ايك اسباب كى بنا پر رد كر رہا ہو، جو اس كے اخلاق اور اس كى شہرت سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر اس كے خاندان اور گھر والوں سےمتعلق ہوں، يا كوئى اور سبب ہو سكتا ہے اس ليے ولى كو چاہيے كہ وہ رشتہ رد كرنے كےاسباب بيان كرے اگر تو سبب معقول ہو تو وہ عاضل يعنى شادى سے روكنے والا نہيں كہلائيگا.
ليكن اگر وہ بغير كسى سبب كے يا پھر كسى غير معتبر اور غير معقول سبب كے رشتہ سے انكار كر رہا ہے تو وہ عاضل يعنى شادى سے روكنے والا كہلائيگا، اور ہو سكتا ہے معتبر اور غير معتبر سبب ہونےميں اختلاف ہو جائے، اس سے اس بات كى تائيد ہوتى ہے كہ شادى سے روكنے كا حكم لگانے ميں جلد بازى سے كام نہيں لينا چاہيے.
لہذا عورت كى شادى كرنے سے قبل تحقيق كر لينى چاہيے كہ اس كا ولى اس كى شادى كيوں نہيں كر رہا، اورخاص كر جب اس عورت كا كوئى اور ولى نہ ہو اور اس كى شادى اسلامك سينٹر كى جانب سے كرائى جا رہى ہو تو تحقيق كرنا ضرورى ہے.
نكاح كى اہميت اور اس پر مرتب ہونے والے عظيم نتائج اور عضل كے دعوى ميں غلطى ہونے احتمال كى خاطر فقھاء كرام كى ايك جماعت كا كہنا ہے كہ: عضل يعنى شادى سے روكنے كى حالت ميں قريب والے كى ولايت دور والے ولى ميں منتقل نہيں ہوگى، بلكہ سلطان يعنى قاضى ولى بن جائيگا.
اور فقھاء كى ايك جماعت كہتى ہے كہ: عضل يعنى شادى سے روكنا اسى صورت ميں ثابت ہوگا جب يہ عمل تين بار تكرار كے ساتھ ثابت ہو جائے.
الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:
” فقھاء كرام كا مسلك ہے كہ جب ولى كا عضل يعنى عورت كو شادى سے روكنا ثابت ہو جائے اور يہ چيز حاكم كے ہاں ثابت ہو اور عضل كا كوئى معقول اور قابل قبول سبب نہ ہو تو قاضى اور حاكم اس كى شادى كا حكم دےگا، اور اگر ولى اس كى شادى نہ كرے تو پھر اس كى ولايت دوسرے ولى كو منتقل ہو جائيگى.
ليكن فقھاء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ اس صورت ميں ولايت كس ولى ميں منتقل ہوگى، احناف اور شافعيہ اور مالكيہ ميں سے ابن قاسم كے علاوہ اور ايك روايت ميں امام احمد كے ہاں ولايت حاكم ميں منتلق ہو جائيگى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اگر آپس ميں اختلاف كريں تو پھر جس كا ولى نہيں اس كا حاكم ولى ہو گا “
اور اس ليے بھى كہ حاكم ايسے شخص پر ظلم نہيں كريگا جو اس كے پاس مقدمہ لے كرآتا ہے، اور حاكم ظلم ختم كرنے كے قائم مقام ہوگا، جيسا كہ اگر اس پر قرض ہو اور وہ قرض كى ادائيگى نہ كرے.
عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ اور قاضى شريح سے يہى مروى ہے، ليكن شافعيہ كے ہاں اسے مقيد كيا گيا ہے كہ اگر عضل تين بار سے كم ہو تو پھر.
اور حنابلہ كہتے ہيں كہ جب قريب ترين ولى شادى نہ كرے تو ولايت دور والے ولى ميں منتلق ہو جائيگى، امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے؛ كيونكہ قريب والے ولى نہيں شادى نہيں كى تو دور والا ولى اس كى شادى كرنے كا مالك بن جائيگا، جس طرح اگر وہ پاگل ہو جائے تو دور والا ولى شادى كريگا
اور اس ليے بھى كہ وہ شادى سے روكنے كى بنا پر فاسق ہو گيا تو اس طرح ولايت اس سے منتلق ہو گئى، اور اگر سارے ولى اس كى شادى نہ كريں تو پھر حاكم اس كى شادى كريگا.
رہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان :
” جس كا كوئى ولى نہ ہو تو حاكم اس كا ولى ہوگا “
اسے اس صورت پر محمول كيا جائيگا جب سارے ولى اس كى شادى نہ كريں؛ اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
“اگر وہ جھگڑا اور اختلاف كريں “
يہاں جمع كى ضمير سب كے ليے ہے.
اور شافعيہ كہتے ہيں كہ: جب قريب ترين ولى سے بار بار شادى نہ كرنے كا تكرار ہو، اگر تين بار ہو تو ولايت منتقل ہو گر اس سے دور والے ولى ميں چلى جائيگى، كيونكہ اس نے شادى سے روك كر فسق كا ارتكاب كيا ہے؛ اور اس ليے كہ بار بار شادى سے روكنے كى بنا پر وہ فاسق ہو جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 30 / 144 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب عورت كا ولى كسى مناسب اور دينى اور اخلاقى كفو و برابرى كا رشتہ آنے پر عورت كى شادى نہ كرے تو ولايت اس سے منتلق ہو كر اس كے بعد قريب ترين عصبہ مرد ميں چلى جائيگى، اور اگر سارے ولى ہى انكار كر ديں جيسا كہ غالب ميں ہوتا ہے تو پھر ولايت شرعى حاكم كو منتقل ہو جائيگى، اور شرعى حاكم اس عورت كى شادى كرائيگا.
شرعى حاكم پر ضرورى اور واجب ہے كہ اگر معاملہ اس تك پہنچے اور اسے علم ہو جائے كہ اس عورت كے اولياء نے اس عورت كى شادى كرنے سے انكار كر ديا ہے تو وہ شرعى حاكم اس كى شادى كرائے، كيونكہ جب ولايت خاصہ حاصل نہ ہو تو حاكم شرعى كو عمومى ولايت حاصل ہوتى ہے.
اور پھر فقھاء كرام نے ذكر كيا ہے كہ جب كفو و برابرى كا مناسب رشتہ ولى بار بار رد كر دے تو اس سے وہ فاسق جائيگا اور اس طرح اس كى ولايت ساقط ہو جائيگى، بلكہ امام احمد رحمہ اللہ كا مشہور مذہب تو يہ ہے كہ اس كى امامت بھى ساقط ہو جائيگى، اس ليے وہ نماز ميں امام بھى نہيں بن سكتا، اور يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.
جيسا كہ ابھى ہم نے اشارہ كيا ہے كہ بعض لوگ اپنے ولايت ميں موجود عورت اور لڑكى كا مناسب اور كفو و برابرى كا رشتہ آنے پر وہ رشتہ رد كر ديتے ہيں، ليكن لڑكى قاضى كے پاس اپنا معاملہ لانے سے شرماتى ہے تا كہ وہ اس كى شادى كرے، اور يہ چيز فى الواقع پائى جاتى ہے.
ليكن اس لڑكى كو چاہيے كہ وہ مصلحت اور خرابى و مفاسد دونوں ميں موازنہ كرے كہ ان ميں كونسى چيز زيادہ اور شديد ہے، آيا وہ بغير شادى كے رہے اور اس كا ولى اپنے مزاج كے مطابق اس پر حكم چلاتا پھرے، اور اگر وہ زيادہ عمر كى ہو گئى تو اس كا كوئى رشتہ بھى نہيں لےگا، يا پھر قاضى كے پاس جا كر اپنا مقدمہ پيش كرے كہ وہ شادى كرنا چاہتى ہے حالانكہ يہ اسے شرعى حق بھى ہے.
بلاشك و شبہ دوسرا عمل يعنى قاضى كے پاس جانا بہتر اور اولى ہے كہ قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے كيونكہ يہ اس كا حق ہے؛ اور اس ليے بھى كہ اس كا قاضى كے پاس جانا اور قاضى كا اس كى شادى كرانے ميں دوسرى عورت كے ليے بھى مصلحت پائى جاتى ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے جس طرح يہ قاضى كے پاس اپنا مقدمہ لائى ہے دوسرى عورت بھى اپنا مقدمہ لے آئے.
اور اس ليے بھى كہ اس كا قاضى كے پاس اپنا مقدمہ لانا اس طرح كے ظالم افراد كے ليے ظلم سے ركنے كا باعث اور سبب بنے گا جو اپنى ولايت ميں موجود لڑكيوں پر ظلم كرتے اور انہيں برابر اور مناسب رشتہ آنے پر بھى شادى سے روك ديتے ہيں يعنى اس طرح اس ميں تين قسم كى مصلحتيں پائى جاتى ہيں:
پہلى: اس عورت كے ليے مصلحت يہ ہے كہ وہ شادى كے بغير نہيں رہےگى.
دوسرى مصلحت: اس كےعلاوہ دوسرى عورت كے ليے مصلحت ہے كہ دوسرى عورتوں كے ليے بھى دروازہ كھل جائيگا كہ وہ اس انتظار ميں ہيں كہ كوئى مقدمہ لے كر جائے تو وہ بھى اس كى اتباع كريں.
تيسرى مصلحت يہ ہے كہ: اس طرح كے ظالم وليوں كو ظلم سے روكا جا سكےگا جو اپنى بيٹيوں اور يا پھر اللہ نے جن پر ان كو ولى بنايا ہے وہ ان پر اپنے مزاج كے مطابق حكم چلاتے پھرتے ہيں.
اور پھر اس ميں يہ مصلحت بھى پائى جاتى ہے كہ اس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر بھى عمل ہو جائيگا:
” جب تمہارے پاس كوئى ايسا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے اپنى بيٹى كا نكاح كر دو اگر ايسا نہيں كرو گے تو پھر زمين ميں لمبا چھوڑ فساد بپا ہو گا “
اور اس طرح اس ميں ايك خاص مصلحت يہ بھى پائى جاتى ہے كہ اس طرح ان افراد كى حاجب بھى پورى ہو گى جو عورتوں كا رشتہ طلب كرتے ہيں اور وہ دينى اور اخلاقى طور پر اس كے برابر اور كفو كا ہوتا ہے ” انتہى
منقول از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 148 ).
حاصل يہ ہوا كہ: اسلامك سينٹر كے چئرمين كے ليے عضل يعنى ولى كا شادى سے روكنے كى حجت اور دليل كى بنا پر آنے والى عورت كى شادى كرانے ميں جلد بازى سے كام نہيں لينا چاہيے، بلكہ وہ اس عورت سے سوال كرے اور تحقيق كرے كہ رشتہ رد كرنے كا سبب كيا تھا، اور اگر اس كے ليے كوئى مناسب اور معقول سبب واضح ہو جائے تو پھر اسے شادى كرانے كا حق نہيں.
اور اگر شادى كرنے سے انكار كا كوئى معتبر سبب نہ ہو اور اس عورت كا كوئى اور ولى بھى نہ ہو تو پھر اسلامك سينٹر كا چئرمين اس عورت كى شادى كرا دے، خاص كر جب ولى بار بار شادى كرنے سے انكار كر چكا ہو.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب