میری اہلیہ امید سے ہیں اور بتدائی ہفتوں میں ہیں، ہمارے دو بیٹے ہیں جو کہ ابھی بہت چھوٹے ہیں، ایک کی عمر 18 ماہ اور دوسرے کی عمر 7 ماہ ہے، تو کیا میری اہلیہ کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اسقاط حمل کی گنجائش ہے یا نہیں؟ کیونکہ بچے بہت چھوٹے ہیں۔
چالیس دن سے قبل اسقاط حمل کا حکم
سوال: 171943
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فقہائے کرام کے ہاں چالیس دن سے قبل اسقاط حمل سے متعلق مختلف آرا ہیں، چنانچہ احناف، شافعی اور کچھ حنبلی فقہائے کرام اس کے جائز ہونے کے قائل ہیں، جیسے کہ ابن ہمام رحمہ اللہ "فتح القدير" (3/401) میں لکھتے ہیں:
"کیا حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط جائز ہے؟ اس وقت تک جائز ہے جب تک جنین میں اعضا ظاہر نہ ہوئے ہوں، پھر متعدد جگہوں پر اہل علم کا کہنا ہے کہ ، اعضا 120 دن سے قبل ظاہر نہیں ہوتے۔ ان کی اس بات کا تقاضا ہے کہ انہوں نے اعضا بننے سے مراد روح پھونکنے کا مرحلہ لیا ہے، وگرنہ تو یہ بات غلط ہو گی؛ کیونکہ یہ بات تو مشاہدے میں آ چکی ہے کہ اعضا اس سے کہیں پہلے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔" ختم شد
ایسے ہی علامہ رملی رحمہ اللہ "نهاية المحتاج" (8/443) میں لکھتے ہیں:
"راجح موقف یہ ہے کہ روح پھونکے جانے کے بعد مطلق طور پر اسقاط حرام ہے جبکہ روح پھونکے جانے سے پہلے اسقاط حمل جائز ہے۔"
حاشية قليوبي (4/160) میں ہے کہ:
"روح پھونکے جانے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے، چاہے اس کے لیے دوا کا استعمال کرنا پڑے، تاہم یہ موقف غزالی کے موقف سے متصادم ہے۔"
جبکہ علامہ مرداوی "الإنصاف" (1/386) میں کہتے ہیں:
"نطفہ کو ساقط کرنے کے لیے دوا پینا جائز ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ "احکام النساء" میں کہتے ہیں: دوا پینا حرام ہے۔ جبکہ الفروع میں ہے کہ: ابن عقیل کی الفنون میں گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بھی روح پھونکے جانے سے قبل اسقاط جائز ہے، انہوں نے مزید کہا کہ: اس کی معقول وجہ بھی ہے۔" ختم شد
جبکہ مالکی فقہائے کرام مطلق طور پر اسقاط حمل کو ناجائز کہتے ہیں، یہی موقف کچھ احناف، حنبلی اور شافعی فقہائے کرام کا بھی ہے، جیسے کہ :
علامہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبير" (2/266) میں لکھتے ہیں:
"رحم مادر میں حمل کے مراحل میں داخل ہو جانے والی منی کو باہر نکالنا جائز نہیں ہے چاہے 40 دن سے قبل کے مراحل ہی کیوں نہ ہوں، لیکن جب اس میں روح پھونک دی گئی تو اس کے اسقاط کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔"
جبکہ بعض فقہائے کرام عذر کی حالت میں اسقاط حمل کو جائز سمجھتے ہیں، مزید کے لیے آپ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (2/57) کا مطالعہ کریں۔
سپریم علماء کونسل کے اجلاس میں یہ بیانیہ جاری کیا گیا کہ:
"1-حمل کے مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے، البتہ شرعی عذر اور نہایت محدود صورتوں میں اس کے جواز کی گنجائش ہے۔
2- اگر حمل ابتدائی مراحل یعنی چالیس دن سے قبل کا مرحلہ ہو اور اسقاط حمل کی شرعی وجہ ہو یا حقیقی نقصان کا خاتمہ کرنا ہو تو جواز کی گنجائش ہے۔ تاہم اگر اسقاط حمل صرف اس لیے کروایا جائے کہ بچوں کی تربیت کا مسئلہ آئے گا، ان کی تعلیم اور معاشی حالت دگر گوں ہو جائے گی، یا ان کا مستقبل نہیں بن پائے گا، یا جو بچے ہیں وہی کافی ہیں مزید کی ضرورت نہیں تو پھر اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔" ختم شد
الفتاوى الجامعة (3/1055)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (21/450) میں ہے کہ:
"بنیادی طور پر اصولی بات یہی ہے کہ کسی بھی مرحلے میں شرعی عذر کے بغیر اسقاط حمل جائز نہیں ہے، چنانچہ اگر حمل ابھی حالت نطفہ ہے، یعنی 40 دن یا اس سے کم کا ہے ، اور اسقاط حمل کی شرعی مصلحت بھی ہے ، یا حمل کی وجہ سے ماں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان سے بچانا مقصود ہے تو ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہے، تاہم اس نقصان میں بچوں کی تربیت کے لیے اٹھائی جانے والی مشقت شامل نہیں ہے، یا ان کے اخراجات ، تعلیم و تربیت، یا محدود تعداد میں بچوں پر اکتفا کرنا بھی شامل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ غیر شرعی عذر ہیں۔
لیکن اگر حمل 40 دن سے زیادہ کا ہو گیا ہے تو پھر اسے ساقط کرنا حرام ہے؛ کیونکہ چالیس دن کے بعد نطفہ ، علقہ کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے جس میں انسان کے اعضا کی تخلیق شروع ہو جاتی ہے، اس لیے اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے، تا آں کہ کوئی معتمد طبی کونسل یہ فیصلہ کرے کہ حمل جاری رہنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہے، اگر حمل جاری رہے تو ماں کی زندگی خطرے میں جا سکتی ہے۔" ختم شد
ظاہر یہی ہوتا ہے کہ چالیس دن سے قبل اسقاط حمل جائز ہے لیکن اس وقت جب اس کی کوئی ضرورت ہو، انہی ضرورتوں میں سوال میں مذکور کیفیت بھی ہے؛ کیونکہ اتنے تھوڑے سے عرصے میں اوپر نیچے تین حمل ہونے سے ماں کے لیے شدید مشقت اور جسمانی کمزوری ہو گی، جس سے امکان ہے کہ بچے کی صحت پر بھی منفی اثرات پڑیں گے، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ والدہ اپنے چھوٹے چھوٹے تین بچوں کو سنبھال ہی نہ سکے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات