0 / 0
13,24119/02/2016

جدید خود کار آلات کے ذریعے مرغیاں ذبح کرتے وقت تسمیہ کیسے پڑھا جائے؟

سوال: 172296

سوال: برطانیہ میں ایک ادارہ اسلامی سلاٹر ہاؤس ہےجومذبح خانوں کی نگرانی کرتا ہے، اور ہوٹلوں کو یہ سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ متعلقہ ہوٹلانہی مذبح خانوں کا ذبح شدہ گوشت استعمال کریں جو اس ادارے کی زیر نگرانی چلتے ہیں، ان مذبح خانوں میں مرغی کو درج ذیل طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے:

مرغی کو پہلے ہلکا سا بجلی کا جھٹکا لگایا جاتا ہے جس سے مرغی کی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ مرغی کی قوت میں کمی آتی ہے، اور بجلی کے جھٹکے کی شدت کو کم اور زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے، اس کے بعد مشین چلائی جاتی ہے، جو کہ مرغیوں کو خود کار طریقے سے چلنے والی چھریوں کے نیچے سے گزارتی ہے جس سے خوراک، سانس اور خون کی دونوں رگوں سمیت سب رگیں کٹ جاتی ہیں، اب یہاں مسئلہ یہ در پیش ہے کہ اس مشین کو چلانے والا شخص صرف ابتدا میں تسمیہ پڑھ کر اللہ اکبر کہتا ہے، مذبح خانے کی طرف سے پانچ افراد کو مذبح ہال میں صرف اسی لیے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ “بسم اللہ ، اللہ اکبر” بار بار پڑھتے رہیں، لیکن ذبح کرنے والی مشین کو چلانے میں ان پانچ افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ صرف تسمیہ اور تکبیر ہی پڑھتے رہتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے ذبح شدہ مرغیاں حلال ہیں؟ جن کو ذبح کرتے ہوئے آٹو میٹک مشین چلانے والا صرف پہلی بار ہی تکبیر پڑھتا ہے، اور کیا ہال میں مقرر کردہ پانچ افراد کی طرف سے صرف تکبیریں پڑھتے رہنا فائدہ مند ہوگا؟ یہ واضح رہے کہ یہ پانچ افراد خود ذبح کرنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دینا  بسا اوقات  جانور کی موت کا باعث ہوتا ہے، اور عام طور پر اگر بجلی کا جھٹکا ہلکا یا درمیانی ہو تو جانور صرف بیہوش ہوتا ہے۔

چنانچہ اگر بجلی کے جھٹکے سے جانور مر گیا تو یہ مردار ہے اسے تمام فقہائے کرام کے ہاں کھانا جائز نہیں ہے، اور اگر بجلی کے جھٹکے سے نہ مرے بلکہ فوری بعد چھری سے ذبح کر دیا جائے تو ایسی صورت میں اسے کھانا حلال ہے۔

چنانچہ اس بارے میں ڈاکٹر محمد اشقر حفظہ اللہ کہتے ہیں:

“اگر بجلی کے جھٹکے سے جانور مر جائے تو یہ چوٹ لگ کر مردار ہونے والے جانوروں میں شامل ہوگا،  اور اگر مرنے کی بجائے صرف بیہوش ہو  اور مرنے سے پہلے پہلے شرعی طریقے سے ذبح کر دیا جائے تو حلال ہوگا، اور اگر ذبح کیے بغیر ہی بجلی کے جھٹکوں کے بعد اس کی کھال وغیرہ اتارنی شروع کر دی جائے  تو تب بھی یہ حرام ہوگا” انتہی
ماخوذ از: “مجلہ اسلامی فقہ اکیڈمی” (شمارہ نمبر: 10 (1/339)

اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے یہ قرار داد پاس کی گئی ہے کہ  مرغیوں کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا لگانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ  یہ بات تجربے  اور مشاہدے میں آ چکی ہے کہ اس سے غیر معمولی مقدار میں مرغیاں مر جاتی ہیں۔

اسلامی فقہی اکیڈمی کے  دسویں اجلاس منعقدہ بمقام جدہ، سعودی عرب 23 تا 28 صفر 1418 ہجری بمطابق 28 جون تا 3 جولائی 1997ء میں  یہ قرار داد پا س کی گئی ہے کہ :

“بیہوش کرنے کے بعد ذبح کیے جانے والے جانور شرعی طور پر حلال ہیں بشرطیکہ ان میں تمام فنی شرائط  پائی جائیں اور  ذبح کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ جانور کی موت واقع نہ ہوئی ہو، اس کیلئے موجودہ حالات میں ماہرین  نے درج ذیل امور کو لازمی قرار دیا ہے:

1-برقی رو کے منفی اور مثبت   راڈ کو دائیں اور بائیں کنپٹی پر لگایا جائے یا پیشانی اور سر کی پچھلی جانب یعنی گدی پر لگایا جائے۔

2-وولٹیج 100 سے 400 وولٹ کے درمیان ہو۔

3-برقی رو کی شدت (0.75 سے 1 ) ایمپیئر  تک بکری کیلئے ہو، اور  گائے وغیرہ کیلئے (2 سے 2.5) ایمپیئر  تک ہو۔

4-بجلی کا جھٹکا 3 سے 6 سیکنڈ تک   دیا جائے۔

ج‌-جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہے اسے (Captive Bolt Pistol)  [ایک پستول جس میں سے ایک لوہے کا نوک دار میخ نکل کر جانور کے دماغ میں لگتا ہے اور بیہوش ہو جاتا ہے، چنانچہ 3 سے 4 منٹ تک جانور ذبح نہ کیا جائے تو وہ مر جائے گا] کے ذریعے یا دماغ پر کلہاڑی اور ہتھوڑی  مار کر ، یا گیس کے ذریعے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ عام طور پر انگریز انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جانور بیہوش کرتے ہیں۔

ح‌-مرغیوں کو بجلی کے جھٹکوں سے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ عینی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کافی تعداد میں مرغیاں ذبح ہونے سے پہلے ہی مر جاتی ہیں۔

خ‌-کاربن ڈائی آکسائید  کو ہوا یا آکسیجن کے ساتھ  ملا کر ، یا چپٹی گولی والی پستول [non-penetrating bolt gun] استعمال کر کے جانور بیہوش کرنا اور پھر اسے ذبح کرنا ایسے جانور کا گوشت حلال ہے، بشرطیکہ اس پستول کو بھی ایسے انداز سے استعمال کیا جائے جس سے جانور کی موت ذبح کرنے سے پہلے واقع نہ ہو” انتہی

ڈاکٹر محمد ہواری کا کہنا ہے کہ :
“مرغی کو بجلی کے جھٹکے دینے سے 90 فیصد مرغیوں کا دل حرکت کرنے سے رک جاتا ہے، اور ان میں سے 10 فیصد مر بھی جاتی ہیں”
دیکھیں:   “مجلة مجمع الفقه الإسلامي” شمارہ نمبر: 10 ( 1 / 411 -583)

مذکورہ بالا تفصیل کے تحت اسلامی فقہی اکیڈمی  نے ذکر کیا ہے کہ غیر معمولی تعداد میں مرغیاں مر جاتی ہیں ، اور انہیں زندہ مرغیوں سے الگ بھی نہیں کیا جاتا تو ایسی صورت میں بجلی کا جھٹکا لگانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر بجلی کا جھٹکا اتنا ہلکا ہو کہ موت واقع نہ ہو تو پھر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا جانور حلال ہوگا۔

دوم:

ذبیحہ کے حلال ہونے کیلئے  تسمیہ پڑھنا شرط ہے، اور اہل علم کے راجح موقف کے مطابق بھولنے یا لا علمی کی وجہ سے یہ ساقط نہیں ہو سکتا۔
اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (85669) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اصولی طور پر تسمیہ کسی معین جانور کو سامنے رکھ کر پڑھا جاتا ہے۔
لیکن ایک ہی وقت میں متعدد جانوروں کو ذبح کرنے والے خود کار آلات  کے سامنے آنے پر علمائے کرام  ایسے آلات سے ذبح شدہ جانور کے حلال ہونے کیلئے تسمیہ کی شرط  سے متعلق متعدد آراء رکھتے ہیں:

1-ایک ہی وقت میں اگر  مشین سے کئی جانور ذبح ہوتے ہوں تو پھر مشین چلانے والے کی جانب سے ایک بار مشین چلانے پر ایک  دفعہ تسمیہ پڑھنا کافی ہوگا، یہی فتوی دائمی فتوی کمیٹی نے دیا ہے اور اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے قرار داد بھی یہی پاس کی گئی ہے۔

2-مشین چلانے والے کی طرف سے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہے، بشرطیکہ جن مرغیوں کو ذبح کرنا چاہتا ہے وہ اس کے سامنے ہوں، مثال کے طور پر مرغیوں کو چین وغیرہ میں لگا دیا گیا ہو۔ یہ فتوی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے۔

3-ان آلات کیساتھ ذبح کرتے ہوئے تسمیہ پڑھنا مشکل ہے، اس لیے ان کے ذریعے ذبح کرنا حلال نہیں ہے۔

ان میں سے راجح پہلا موقف ہی ہے؛ اس کے درج ذیل دلائل ہیں:

دائمی فتوی کمیٹی کے  فتاوی میں ہے کہ:
“خود کار طریقے سے ذبح کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مشینوں کے ذریعے بیک وقت دسیوں مرغیاں ایک ہی تسمیہ کہہ کر ذبح کر دی جاتی ہیں، اور اگر کوئی شخص بہت بڑی تعداد میں مرغیاں ذبح کر رہا ہے تو کیا  اس کیلئے ایک ہی بار تسمیہ کہنا درست ہے؟ یا ہر بار اسے الگ سے تسمیہ کہنا ہوگا؟”
تو کمیٹی نے جواب دیا:

1- جدید آلات کے ذریعے ذبح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ  یہ آلات تیز دھار  والے ہوں، اور حلق کیساتھ دیگر رگوں کو بھی کاٹ دیں۔

2-اگر مشین ایک وقت میں متعدد مرغیاں ذبح کرے تو  سب کیلئے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہوگا، اور یہ تسمیہ کوئی مسلمان یا اہل کتاب میں سے  کوئی بھی مشین کو ذبح کی نیت سے چلاتے وقت پڑھے گا۔

3-اگر مرغی کو ذبح کرنے والا شخص اپنے ہاتھ سے مرغیاں ذبح کر رہا ہے تو ہر مرغی پر الگ سے بسم اللہ پڑھنی ہوگی۔

4-ذبح کرنے کی جگہ سے ذبح کرنا لازمی ہے، یعنی خوراک کی نالی سمیت خون کی دونوں یا کوئی ایک رگ لازمی کاٹی جائے۔

بکر ابو زید۔۔۔ صالح الفوزان ۔۔۔  عبد الله بن غدیان ۔۔۔ عبد العزیز بن عبد الله آل شیخ ” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (22/463)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (22/ 462) میں  یہ بھی ہے کہ:
“جانور ذبح کرنے والی مشین کو چلاتے وقت صرف ایک ہی بار تسمیہ پڑھنا کافی ہے؟ یہ واضح رہے کہ مشین چلاتے وقت صرف ایک بار ہی تسمیہ پڑھا جاتا ہے”

تو کمیٹی نے جواب دیا:
“متعدد جانوروں کو یک بار ذبح کرنے کیلئے مشین چلانے والا شخص ایک بار تسمیہ کہہ دے تو یہ کافی ہوگا، بشرطیکہ مشین چلانے  والا شخص مسلمان ، یا اہل کتاب میں سے یہودی یا عیسائی ہو۔
عبد الله بن غدیان ۔۔۔ عبد الرزاق عفیفی۔۔۔  عبد العزیز بن عبد الله بن باز” انتہی

گزشتہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی قرار دادوں میں یہ بھی ہے کہ:
“آٹھویں شق: اصولی طور پر مرغیوں اور دیگر جانوروں کو ہاتھ سے ذبح کیا جائے ، تاہم  اگر دوسری شق میں مذکور تمام شرائط اور ضوابط پورے ہوں تو پھر مرغیوں وغیرہ کو خود کار آلات سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ یک بار میں جتنی بھی مرغیاں ذبح ہوں ان کیلئے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہے، اور جیسے ہی یہ تسلسل ٹوٹے تو پھر دوبارہ سے تسمیہ پڑھنا ہوگا” انتہی

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے پاس کردہ قرار داد میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ تسمیہ مشین چلانے والا ہی کہے گا۔

ڈاکٹر سلیمان اشقر کہتے ہیں کہ:
“بڑی تعداد میں شریعت کے مطابق ہاتھ سے جانور ذبح کرتے ہوئے ہر جانور پر تسمیہ پڑھنا ذبح کرنے والوں کیلئے شدید مشقت کا باعث ہے، چنانچہ اگر کسی ایک شخص کو ایک گھنٹے میں 1200 مرغیاں ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو  اس کا مطلب ہے کہ ہر تین سیکنڈ میں ایک مرغی ذبح کرنی ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ اس نے ایک گھنٹے میں 1200 مرتبہ بسم اللہ واللہ اکبر کہنا ہے، اور اس میں بہت مشقت اور تنگی  کا سامنا کرنا پڑیگا، جبکہ شریعت میں تنگی اور مشقت کو ختم کرنے کا  کہا گیا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تم پر دین میں مشقت اور تنگی نہیں رکھی۔ [ الحج: 78]

اسی وجہ سے کویت کے دار الافتاء نے یہ فتوی صادر کیا اور جس وقت یہ فتوی صادر ہوا تھا میں بھی فتوی کمیٹی کا ممبر تھا ، کہ بہت بڑی تعداد میں مرغیوں کو ذبح کرتے وقت  صرف شروع میں تسمیہ پڑھا جائے اور بنا کسی توقف کے ذبح کا عمل جاری رہے تو ابتدا میں پڑھی ہوئی تسمیہ ہی کافی ہے، چنانچہ اگر درمیان میں انقطاع  آ جائے تو ذبح کرنے والا بقیہ مرغیوں پر دوبارہ سے تسمیہ پڑھ دے” انتہی
“مجلة مجمع الفقه الإسلامي” شمارہ نمبر: 10 ( 1/ 346)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا جس کا متن درج ذیل ہے:

سائل کہتا ہے کہ: “میں وطنیہ پولٹری فارم  میں مرغیوں کو ذبح کرنے کا طریقہ دیکھنے کیلئے گیا ؛ تو وہ شروع میں مرغی کو زنجیر میں لٹکا دیتے ہیں تا کہ ذبح کرنے والے کے سامنے سے گزرتے ہوئے حرکت نہ کر سکے، پھر یہ مرغی ذبح کرنے والے کے سامنے سے گزری تو اس نے بسم اللہ پڑھے بغیر اسے ذبح کر دیا،
تو میں نے پوچھا : تم نے بسم اللہ کیوں نہیں پڑھی؟

 

تو اس نے کہا:  میں یومیہ پانچ لاکھ مرغیوں پر کیسے بسم اللہ پڑھ سکتا ہوں؟ اس لیے میں شروع میں بسم اللہ  اللہ اکبر ، پڑھ کر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
میں نے پوچھا: اس کے بارے میں تم نے کسی سے پوچھا ہے؟
اس نے کہا: اہل علم نے اس کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔
شیخ صاحب! اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ ایسا کرنا جائز ہے؟ “

تو انہوں نے جواب دیا:
“کسی بھی معین چیز پر تسمیہ پڑھنا لا زمی ہے، چاہے معین جانور ایک ہوں یا زیادہ، چنانچہ مثال کے طور پر اگر ایک ہزار مرغیوں کو زنجیر پر لٹکا دیا گیا ، اور پھر مشین چلنے پر اس نے بسم اللہ پڑھ لی تو یہ کافی ہے، اسی طرح جب دوسری بار مرغیوں کو لٹکا دیا گیا اور مشین چل پڑی چھریوں سے مرغیوں کے ذبح کرنے کا عمل شروع ہو گیا تو  دوسری بار  والی مرغیوں پر تسمیہ پڑھے، اسی طرح تیسری اور چوتھی بار بھی ایسے ہی کرے۔

سائل: شیخ ! ذبح کرنے والے کا کہنا ہے کہ: میں ایک ہی دفعہ تسمیہ پڑھتا ہوں، تو کیا یہ کافی ہے؟
شیخ: مشین چلنے پر ایک دفعہ پڑھتا ہے اور پھر مشین بند ہونے تک پڑھتا ہی نہیں ہے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ تسمیہ کسی معین چیز پر پڑھنا لازمی امر ہے۔
سائل: شیخ ایک بات اور بھی ہے! ہم ایک بار تبو ک میں قائم اسٹرا فارمز میں گئے تو وہ وہاں پر بٹیرے  ذبح کر رہے تھے، اس کیلئے وہ بٹیروں کو پہلے چین میں لٹکاتے  اور پھر ایک مشین کے ذریعے ان پر پانی پھینکا جاتا جس سے ان پر غنودگی سے طاری ہو جاتی ، پھر اس کے بعد یہ بٹیرے ایک دیوار کے پاس سے گزرتے جہاں پر بسم اللہ و اللہ اکبر لکھا ہوا ہے، وہاں سے گزر کر  نے کا بعد اس کا سر مشین سے کاٹ دیا جاتا۔
وہاں پر موجود ایک ذمہ دار نے کہا کہ اس طرح کرنا بھی کافی ہے کہ دیوار پر بسم اللہ و اللہ اکبر لکھا ہوا ہے۔

شیخ: یہ بالکل جہالت ہے، اور ہاں آپ اور آپ کے رفقا جنہوں نے یہ تمام معاملات دیکھے ہیں ایک تحریر لکھ کر اس پر دستخط کریں اور دار الافتاء  ارسال کریں ، آپ نے اپنی تحریر میں یہ بھی لکھنا ہے کہ یہ کب  ہوا تھا، تا کہ آپ بری الذمہ ہوں۔

سائل: شیخ ! ان کا کہنا ہے کہ متعدد علمائے کرام نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔

شیخ: نہیں ، ایسا ممکن نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ کچھ مشایخ نے اس صورت کے بارے میں فتوی نہ دیا ہو، بلکہ کسی اور صورت کے بارے میں وہی فتوی دیا ہو جو میں نے بتلایا ہے، یعنی کہ متعین جانوروں کو سامنے رکھ کر انہیں ذبح کرنے کی نیت کرے اور پھر سب پر شروع میں ہی تسمیہ پڑھ دے، یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ پرندوں کا غول دیکھ کر شکاری بندوق چلائے اور بسم اللہ پڑھ کر فائر کرے اس فائر کی وجہ سے بیس پرندے  شکار ہوں تو یہ جائز  اور حلال ہونگے”
“اللقاء المفتوح “(35/ 27)

راجح -واللہ اعلم-یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی رائے کی بجائے جن مرغیوں کو ذبح کرنا ہے ان کی تعین کرنا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں پر ایک بار تسمیہ پڑھنے پر اکتفا کرنا شکاری کی صورت میں مجبوری کی حالت پر قیاس شدہ ہے، اور شکار میں معین پرندوں کا شکار کرنے کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اپنے ہتھیار پر بسم اللہ پڑھے گا، چنانچہ اگر شکاری نے شکار کرتے ہوئے اپنے ہتھیار کو بسم اللہ پڑھ کر استعمال کیا  اور نیت کسی خاص شکار کی کی لیکن وہ کسی اور کو جا لگا تو وہ شکار حلال ہی ہوگا۔

یہاں ہم شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی مفید گفتگو نقل کرتے ہیں ، جو ہماری ذکر شدہ بات کی تائید کرتی ہے کہ اصولاً ہر ذبیحہ  پر تسمیہ الگ سے پڑھی جائے گی، جبکہ ذبح کرنے والی مشین کو چلانا والے کی طرف سے ایک بار تسمیہ پڑھنا خلاف اصل اور رخصت  ہے، جسے شکار کی صورت  پر اضطراری حالت میں قیاس کیا گیا ہے، اور اس میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس شخص کا ذبح کرنے والی مشین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے وہ اس کے پاس کھڑے ہو کر بسم اللہ پڑھے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

تقی عثمانی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ:
“اس طریقے سے جانور ذبح کرتے ہوئے تسمیہ کہنے کا معاملہ بہت سنگین نوعیت کا ہے، اس میں پہلا مسئلہ یہ آتا ہے کہ ذبح کرنے والا کون ہے؟ کیونکہ ذبح کرنے والے پر تسمیہ پڑھنا واجب ہے، چنانچہ اگر ایک شخص ذبح کرے اور دوسرا کوئی شخص تسمیہ پڑھ دے تو یہ جائز نہیں ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خود کار مشین میں ذبح کرنے والا کون ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے بھی مشین کو چلایا ہے وہی ذبح کرنے والا شمار ہوگا؛ کیونکہ بجلی سے چلنے والی تمام مشینوں کا عمل اسے چلانے والے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، ویسے بھی مشین کوئی ذی عقل چیز تو ہے نہیں کہ اس کی طرف کسی کام کی نسبت کی جائے، چنانچہ جو بھی ان مشینوں کو چلاتا ہے اسی کی طرف کام کی نسبت کی جاتی ہے، لہذا مشین کے واسطے سے حقیقی فاعل وہی ہوتا ہے ۔

اب یہاں ایک نیا مسئلہ ہے کہ: جس نے بھی یہ مشین صبح کام شروع ہوتے وقت چلائی  وہ دن میں صرف ایک بار ہی چلاتا ہے اور پھر ڈیوٹی ٹائم کے دوران وہ مشین چلتی ہی رہتی ہے، اور بسا اوقات دن رات مسلسل چلتی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں مرغیاں ذبح ہوئی، تو کیا سارے دن ذبح ہونے والی مرغیوں کیلئے دن کے شروع میں کہی گئی تسمیہ کافی ہوگی؟

قرآنی آیت: (وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ )
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ[الأنعام: 121] کا ظاہر اس بات کا تقاضا کر تا ہے کہ ہر جانور کو ذبح کرنے کیلئے الگ سے تسمیہ پڑھی جائے گی اور تسمیہ پڑھنے کے فوراً بعد جانور ذبح کر دیا جائے گا۔

اسی بنیاد پر فقہائے کرام نے  احکام مستنبط کرتے ہوئے کہا ہے کہ  ہر جانور پر یا ہر ذبح کرنے کے عمل پر تسمیہ پڑھنا واجب ہے۔

میں نے اپنے مضمون میں فقہائے کرام کی عبارتیں ذکر کی ہیں کہ: فقہائے کرام ہر جانور پر الگ سے تسمیہ پڑھنے کی شرط لگاتے ہیں، اور یہ بھی لازم قرار دیتے ہیں کہ ذبح اور تسمیہ دونوں ایک ہی وقت میں ہوں دونوں میں قابل ذکر فاصلہ نہ ہو۔

اب یہ شرائط بجلی سے چلنے والی مذکورہ مشین  میں نہیں پائی جاتیں، کیونکہ اگر مشین چلاتے ہوئے اگر تسمیہ کہی جائے تو یہ ہر جانور پر تسمیہ نہیں ہے، بلکہ درمیان میں ہزاروں مرغیوں کے ذبح ہونے کا فاصلہ بھی ہے، جو بسا اوقات 24 گھنٹے یا 48 گھنٹوں تک بھی پھیل سکتا ہے، تو اس سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ اس طرح سے تسمیہ پڑھنا سارے دن کے جانوروں کو ذبح کرنے کیلئے کافی نہیں ہوگا۔

میں نے کینڈا کے کچھ مذبح خانوں کا دورہ کیا اور وہاں میں نے دیکھا کہ انہوں نے گھومنے والی چھریوں کے پاس ایک آدمی کو مقرر کیا ہے وہ مسلسل “بسم اللہ ، اللہ اکبر ” کہتا جا رہا ہے، میں نے اس مشین کے بارے میں بھی گفتگو کی اور کہا کہ:
اس شخص کی تسمیہ اور تکبیر  کو شرعی حکم دینے کیلئے کچھ تحفظات ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

1-تسمیہ ذبح کرنے والے پر پڑھنا لازمی ہے، لیکن گھومنے والی چھریوں کے پاس کھڑے ہوئے شخص کا ذبح کرنے کے عمل سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے، کیونکہ نہ تو اس نے مشین کو چلایا ہے، نہ چھری چلائی، اور نہ ہی مرغیاں اس کے قریب کی گئیں، لہذا یہ شخص ذبح کرنے کے عمل سے بالکل الگ تھلگ ہے، اس کا ذبح کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس کی تسمیہ اور تکبیر ذبح کرنے والے شخص کی طرف سے نہیں سمجھی جا سکتی۔

2-گھومنے والی چھریوں کے پاس متعدد مرغیاں  چند سیکنڈوں کے دورانیے میں گزر جاتی ہیں ، اور کھڑا ہوا یہ شخص بغیر وقفے کے ہر ایک پر تکبیر نہیں پڑھ سکتا۔

3-تسمیہ پڑھنے کیلئے مقرر کردہ شخص انسان ہے، وہ کوئی خود کار مشین نہیں ہے، اس لیے وہ کسی اور چیز میں بھی مشغول ہو سکتا ہے، اسے کسی اور چیز کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت بھی پڑھ سکتی ہے، لیکن اسی دوران دسیوں مرغیوں پر چھری چل جائے گی اور اسے ان پر تسمیہ پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔

یہاں خود کار مشین پر تسمیہ کے حوالے سے ایک اور بھی قابل غور امر ہے کہ ہم اس مشین کے چلانے کو شکار کیلئے کتا چھوڑنے پر قیاس کر لیں؛ اس لیے کہ شکار میں تسمیہ اس وقت پڑھا جاتا ہے جب شکار کیلئے کتا چھوڑیں، چنانچہ شکار پکڑے جانے یا اس کے مرنے کے وقت تسمیہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، اور شکار کی اس صورت میں شکاری کتا چھوڑنے اور تسمیہ پڑھنے میں کافی فاصلہ آ سکتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کتا ایک بار میں متعدد جانوروں  کا شکار کر لے، اور اس بارے میں ظاہر سی بات ہے کہ سب شکار حلال ہونگے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر شکاری  تسمیہ پڑھ کر کسی خاص جانور کے شکار کی نیت سے تسمیہ پڑھے لیکن کوئی اور جانور شکار ہو جائے تو وہ بھی حلال ہی ہوگا، لیکن اگر شکاری نے ایک تیر نکال کر اس پر تسمیہ پڑھی پھر اس رکھ کر دوسرا تیر نکالا اور شکار کر دیا لیکن تسمیہ نہیں پڑھی تو اس کا شکار حلال نہیں ہوگا”

یہ تمام باتیں اضطراری حالت میں ہیں جبکہ ہماری گفتگو اختیاری صورت حال کے بارے میں اور اضطراری حالت پر اختیاری حالت کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔

تاہم اگر ہم ان نکات کی طرف دیکھیں کہ:
* آبادی بہت بڑھ چکی ہے، صارفین کی تعداد زیادہ اور ذبح کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی بنا پر ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مصنوعات کی ضرورت ہے
* شریعت نے شکار کرتے ہوئے شکار کا تعین مشکل ہونے کی وجہ سے اس کی تعیین لازمی قرار نہیں دی، جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : “ایسی صورت حال میں شریعت رکاوٹ اور مشکلات کو درمیان میں حائل نہیں ہونے دیتی”
تو ہمیں صرف تسمیہ پڑھنے سے متعلق اختیاری حالات کو اضطراری حالات پر قیاس کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے، تا کہ رکاوٹیں ختم ہوں اور لوگوں کیلئے آسانی پیدا ہو۔

اس تمام گفتگو کے بعد بھی میں  اس امر کو بہت زیادہ قوی نہیں سمجھتا ، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں علمائے کرام کے سامنے اس موضوع کو رکھوں، اور اس کے بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میں نے ابھی تک اس سے متاثر ہو کر کوئی فتوی نہیں دیا، کیونکہ ہمارے پاس گھومنے والی چھریوں  کا متبادل موجود ہے، اور اس متبادل کی وجہ سے پروڈکشن پر بھی کسی قسم کا منفی اثر نہیں پڑتا، متبادل یہ ہے کہ گھومنے والی خود کار چھریوں کی جگہ پر چار مسلمانوں کو ذبح کرنے کیلئے کھڑا کر دیا جائے اور سب کے سب لٹکی ہوئی مرغیوں کو  ذبح کریں اور ساتھ میں تسمیہ بھی پڑھیں۔

یہ متبادل میں نے ری یونین جزیرہ کے ایک بڑے مذبح خانے کے سامنے رکھا تو انہوں نے اس کا تجرباتی مشاہدہ کیا، اور تجربے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اس طرح ان کی پروڈکشن پر کسی قسم کا کوئی منفی اثر نہیں پڑا ، اس کی وجہ یہ بنی کہ چار افراد مل کر اتنی ہی تعداد میں مرغیاں ذبح کرتے تھے جتنی تعداد میں خود کار گھومنے والی چھریاں  ذبح کرتی تھیں”
شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی، ماخوذ از: “مجلة مجمع الفقه الإسلامي” شمارہ نمبر: 10 ( 1/ 541- 544)

گزشتہ پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ :

1-مرغیوں کو بجلی کا جھٹکا بالکل مت لگائیں، لہذا ذبح کرنے کے عمل پر نگرانی کرنے والے ادارے اس وقت تک سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں جب تک کرنٹ کی وجہ سے مرغیوں کی عدم ِ اموات کا یقین نہ کر لیں۔

2-جس وقت مشین چلائی جائے اس وقت تسمیہ پڑھنا کافی ہے، اور جب رک جائے تو دوبارہ چلنے پر پھر تسمیہ پڑھی جائے گی۔

3-مشین کے پاس کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف سے تسمیہ پڑھنے کی کوئی وقعت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فضول کام ہے، اس لیے اس سے لازمی طور پر بچیں۔

4-جانوروں کے ذبح ہوتے ہوئے ان کی شرعی قواعد و ضوابط کی نگرانی کرنے والے ادارے  تمام تر شرعی اصولوں پر پا بندی کو یقینی بنائیں، اور ان میں کسی قسم کا تساہل برداشت نہ کریں۔

کوشش کریں کہ شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی اقتراح کے مطابق ذبح کرنے کا عمل ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیں مشینی ذبح کو ترجیح مت دیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بجلی کے جھٹکوں اور تسمیہ  پڑھنے کا مسئلہ در پیش نہیں آئے گا، ایسے ہی یہ امر بھی یقینی ہو جائے گا کہ مرغی کو مخصوص جگہ سے ہی ذبح کیا جائے  گا ؛ کیونکہ مرغیوں کا سائز چھوٹا بڑا ہوتا ہے اور مشینی چھریاں اس چیز کا خیال نہیں کرتیں ، اس بات کی طرف بھی کچھ مضمون نگاروں نے اشارہ کیا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android