0 / 0
3,58006/12/2013

مسلمان كى عيسائى مطلقہ بيوى كى عدت

سوال: 172350

ميں جزائر سے تعلق ركھتا ہوں اور اسلام كى طرف مائل ايك عيسائى عورت سے شادى كى، ليكن اللہ كى مرضى سے ہمارے مابين عليحدگى ہوگئى، سوال يہ ہے كہ كيا اہل كتاب سے تعلق ركھنے والى عورت بھى عدت گزارےگى، اور اگر وہ عدت گزارنے سے انكار كردے تو كيا ميں اس پر عدت گزارنا ضرورى قرار دوں ؟

اور دوسرى مشكل يہ ہے كہ ميں اس كے گھر ميں ہى رہ رہا ہوں، ميرے پاس كوئى اور رہائش نہيں جہاں رہائش اختيار كر سكوں، اللہ تعالى آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق سے نوازے، يہ بتائيں كہ دين اسلام ميں اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اہل كتاب سے تعلق ركھنے والى بيوى بھى مسلمان عورت كى طرح طلاق اور خاوند فوت ہونے كى عدت گزارےگى.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

” احناف شافعيہ اور حنابلہ اور مالكيہ اور ابو عبد كے ہاں اہل كتاب كى عورت پر بھى طلاق اور خاوند فوت ہونے يا نكاح فسخ كرنے كى اسى طرح عدت ہے جس طرح ايك مسلمان عورت پر عدت ہوتى ہے، كيونكہ عدت كے متعلق جو احاديث اور آيات وارد ہيں وہ عام ہيں، ان ميں كوئى فرق نہيں، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ خاوند مسلمان ہونا چاہيے، كيونكہ عدت تو اللہ تعالى اور خاوند كے حق كے ساتھ واجب ہوتى ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے مومنو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر ہاتھ لگانے ( دخول ) سے قبل انہيں طلاق دے دو ت وان پر تمہارا كوئى حق عدت كا نہيں جسے تم شمار كرو الاحزاب ( 49 ).

تو يہ خاوند كا حق ہے، اور كتابى يا ذمى عورت كو بھى حقوق العباد كا خطاب ہے وہ بھى اس پر عمل كريگى، اس ليے اس پر عدت واجب ہوگى، اور خاوند اور بچے كے حق كى بنا پر اسے عدت گزارنے پر مجبور كيا جائيگا؛ كيونكہ وہ عورت بھى حقوق العباد كى ادائيگى كريگى ” انتہى

دوم:

عدت والى مطلقہ عورت كے ساتھ رہائش كا معاملہ طلاق كے اعتبار سے ہوگا، اگر طلاق رجعى ہو تو پھر ايك ہى رہائش ميں اكٹھا رہنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ رجعى طلاق والى عورت بيوى كے حكم ميں ہوتى ہے.

اور اگر طلاق بائن ہو تو اس حالت ميں وہ ايك دوسرے سے اجنبى ہيں، مرد كے ليے اسے ديكھنا اور اس سے خلوت كرنا حلال نہيں، بلاشك ايك ہى رہائش ميں رہتے ہوئے ان شرعى ضوابط كى پابندى كرنا مشكل ہوگا، كہ خلوت نہ ہو اور پردہ بھى ايسے كيا جائے جس طرح ايك اجنبى اور غير محرم عورت كرتى ہے، ليكن اگر گھر كھلا ہو اور اس كا ايك حصہ اپنے ليے مخصوص كرنا ممكن ہو كہ اس دروازہ اور باورچى خانہ اور ليٹرين وغيرہ بالكل عليحدہ ہو تو پھر صحيح ہے.

ليكن دونوں ايسے گھر ميں رہيں جہاں داخل ہونے كا دروازہ بھى ايك ہو اور اس كے باقى لوازمات يعنى ليٹرين اور باروچى خانہ بھى مشترك ہو تو پھر صحيح نہيں، كيونكہ اس حالت ميں مندرجہ بالا ممنوعہ امور سے اجتناب مشكل ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” تين طلاق يافتہ عورت باقى اجنبى عورتوں كى طرح اجنبى بن جاتى ہے، اس ليے مرد باقى اجنبى عورتوں كى طرح اس سے بھى خلوت نہيں كر سكتا، اور اسے باقى اجنبى عورتوں كى طرح اسے بھى ديكھنا جائز نہيں ” انتہى

الفتاوى الكبرى ( 3 / 349 ).

جسے تين طلاق ہو چكى ہوں وہ طلاق بائن والى عورت كہلاتى ہے، اسے بينونت كبرى كہا جاتا ہے.

ليكن جسے ايك يا دو طلاق ہوئى ہوں اور رجوع كيے بغير اس كى عدت ختم ہو جائے تو يہ بينونت صغرى كہلاتى ہے، اس كا خاوند اس سے نيا عقد نكاح كر سكتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android