ميرے دادا جان نے عورتوں سے شادى كى ايك تو ميرے والد صاحب كى والدہ تھيں، اور ميرے والد صاحب كى بھى دو بيوياں ہيں… ميرى والدہ دوسرى بيوى ہيں…. والد صاحب كى دوسرى بيوى سے بھى ميرى ايك بہن ہے… اس نے ميرے دادا جان كى دوسرى بيوى كا پيٹ بھر كردودھ پيا ہے…. تو كيا ميرے والد صاحب اس كے رضاعى بھائى بنتے ہيں، اور كيا وہ ميرى رضاعى پھوپھى لگتى ہيں ؟؟
يہ علم ميں رہے وہ ميرے چچا كے بيٹے كى بيوى ہے… تو كيا وہ اس كى رضاعى پھوپھى لگتى ہے ؟
رضاعى پھوپھى سے شادى كر لى
سوال: 174560
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب كوئى بچى كسى عورت كا پانچ بار اور پانچ رضعات دودھ پي لے تو دودھ پلانے والى عورت اس كى رضاعى ماں اور اس كا خاوند بچى كا رضاعى باپ بن جائيگا، اور اس دودھ پلانے والى يا اس كى دوسرى بيويوں سے اس كى سارى اولاد دودھ پينے والى بچى كے رضاعى بہن بھائى بن جائيں گے.
اس بنا پر اس بچى نے جب اپنے دادا كى بيوى كا دودھ پيا تو دادا اس بچى كا رضاعى باپ بن گيا، اور وہ بچى اس كے سارے بيٹوں كى رضاعى بہن بن جائيگى، اس طرح وہ آپ كے والد كى رضاعى بہن اور آپ كى رضاعى پھوپھى بن جائيگى.
اور آپ كا چچا جو آپ كے والد كا بھائى ہے اس بچى كا رضاعى بھائى ہوگا، اس ليے آپ كے چچا كے بيٹے كے ليے اس سے شادى كرنا حلال نہيں؛ كيونكہ وہ اس كى رضاعى پھوپھى بنتى ہے، اور اگر واقعتا شادى ہو چكى ہے تو ان دونوں كے مابين عليحدگى كروانا ضرورى ہے، اور اگر اولاد بھى پيدا ہو چكى ہے تو اس كى نسبت والد كى طرف ہى ہوگى؛ كيونكہ وہ شبہ كى وطئ كے نطفہ سے پيدا ہوئے ہيں، اور وطئ شبہ ميں نسب كا الحاق كيا جاتا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب بچہ كسى عورت كا پانچ رضعات يعنى پانچ بار دو برس دودھ چھڑانے كى عمر سے قبل دودھ پى لے تو بالاتفاق وہ اس عورت كا رضاعى بيٹا بن جاتا ہے، اور جس مرد كى بنا پر اس عورت كا دودھ آيا ہے وہ شخص اس بچے كا رضاعى باپ بن جائيگا، اس ميں مشہور آئمہ كرام كا اتفاق ہے، اور اسے لبن الفحل كا نام ديا جاتا ہے “
اور جب مرد اور عورت بچے كے رضاعى ماں باپ بن جائيں تو ان دونوں كى سارى اولاد اس بچے كے رضاعى بہن بھائى بن جائيں گے؛ چاہے وہ صرف باپ سے ہوں يا پھر عورت كى جانب سے؛ حتى كہ اگر كسى شخص كى دو بيوياں ہوں اور ايك بيوى كسى بچے كو دودھ پلائے اور دوسرى بيوى كسى بچى كو دودھ پلائے تو يہ دونوں آپس ميں رضاعى بہن بھائى بن جائيں گے، تو آئمہ اربعہ اور جمہور علماء اسلام كے ہاں بالاتفاق ان كے ليے آپس ميں شادى كرنا جائز نہيں ہوگا.
اسى مسئلہ كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
” دونوں عورتوں كا خاوند ايك ہى ہے جس كى بنا پر دونوں كو دودھ آيا ہے، مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ بچے كے ساتھ دودھ پينے والى يا اس سے پہلے والى اولاد ميں كوئى فرق نہيں يعنى اس بچے كى رضاعت سے قبل پيدا ہونے والى اولاد بھى اس كے بہن بھائى ہونگے.
اور ايسا ہى ہو تو پھر عورت كے سارے رشتہ دار اس بچے كے رضاعى رشتہ دار ہونگے، اور اس عورت كى سارى اولاد اس بچے كے بہن بھائى ہيں، اور اس عورت كے نواسے نواسياں اور پوتے پوتياں بھى اس بچے كے رضاعى رشتہ دار بن جائيں گے اور اس عورت كے آباء و اجداد اور بہن بھائى اور ماموں اور خالائيں بھى يہ سب اس بچے كے ليے حرام ہو جائيں گے ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ (34 / 31 ).
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر (131564 ) اور ( 13357 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات