ميرى والدہ كى شادى كو تيس برس گزر چكے ہيں، جب انہوں نے شادى كى تو ان كے والد يعنى ميرے نانا جان نے آدھا مہر خود ركھا، ميرى والدہ نے اپنے مہر كى پيسوں سے زيور خريدنے كا ارادہ كر ركھا تھا، ليكن ان كے والد صاحب نے ان پيسوں سے بكرياں خريد ليں.
سوال يہ ہے كہ آيا كيا يہ پيسے ميرے نانا جان پر قرض ہيں ؟ اگر واقعتا قرض ہے تو پھر پيسوں كا اندازہ كيسے لگايا جائيگا، يعنى كرنسى كا فرق كا حساب لگانے ميں معيار كيا ہو گا؛ كيونكہ اس عرصہ ميں كرنسى تبديل ہو چكى ہے اس وقت آٹھ ہزار تھے، تو كيا نانا جان وہى مبلغ واپس كريں گے، يہ علم ميں رہے كہ يہ اس وقت تو كسى چيز كے برابر نہيں.
باپ نے بيٹى كا مہر لے كر بكريوں كى تجارت ميں لگا ديا
سوال: 175075
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
والد كے علاوہ عورت كے ولى كے ليے عورت كى رضامندى كے بغير مہر ميں سے كچھ لينا جائز نہيں، اس ليے كہ والد كچھ شروط كى موجودگى ميں بيٹى كا مہر لے سكتا ہے ان شروط كو ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر (9594 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
آپ كے نانا نے آپ كى والدہ كے مہر سے جو كچھ ليا ہے اگر تو وہ اس كى شادى كى تيارى كے ليے تھا تو پھر آپ كى والدہ كے ليے كچھ نہيں ہے.
اور اگر آپ كے نانا نے اسے كوئى چيز نہيں دى يا پھر آپ كى والدہ كے خاص مال ( مہر كے علاوہ ) سے شادى كى تيارى كى تو آپ كے نانا نے جو مال ليا اس ميں تفصيل ہے:
اگر تو اس نے اپنى ضرورت و حاجت كى بنا پر ليا اور وہ اس كى بيٹى كى ضرورت سے زائد تھا، مثلا باقى مانندہ آدھا مہر بچى كے مناسب زيور خريدنے كے ليے كافى تھا تو پھر باپ پر كوئى حرج نہيں.
اور اگر باپ نے بغير كى ضرورت كى بنا پر ليا يا پھر اس سے بچى كى ضرورت ملحق تھى؛ كيونكہ باقى مانندہ آدھا مہر بچى كے مناسب زيور خريدنے كے ليے كافى نہيں، تو پھر باپ نے ناحق مال ليا ہے اس كے ليے حلال نہيں تھا.
اور اگر باپ نے اس مال سے بكرياں خريديں اور بكريوں ميں اضافہ و بڑھوتى ہوئى تو بيٹى كو اس كا اصل مال ملےگا اور جو اضافہ ہے وہ باپ اور بيٹى كے مابين مشترك ہوگا؛ كيونكہ مال غصب كرنے كے بعد اس ميں بڑھوتى و فائدہ ہو تو اس ميں راجح يہى ہے كہ يہ اضافہ اور فائدہ دونوں كے مابين مشترك ہوگا.
مزيد فائدہ كے ليے آپ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى كتاب ” القواعد النورانيۃ ” صفحہ ( 236 ) كا مطالعہ كريں.
اور اگر بكريوں ميں بڑھوتى اور اضافہ نہيں ہوا تو اسے اصل مال واپس كرنا لازم ہے، اگر باپ تنگ دست نہيں تو بيٹى كو زيادہ ادا كرنا چاہيے تا كہ بيٹى راضى ہو جائے؛ كيونكہ كرنسى ميں فرق آ چكا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب