كسى جگہ ظلم و زيادتى كرنے والوں كے خلاف جہاد ميں مسلمان شريك ہوتے ہيں جس طرح كہ بوسنيا ميں ہوا، جب مجاہدين لڑتے ہيں تو وہ زمين بھى حاصل كرتے ہيں اور مال غنيمت اور اسلحہ وغيرہ بھى، جب ہم اسلامى ناحيہ سے بات كرتے ہيں تو پھر اسلام ميں تو چورى حرام ہے، ليكن كيا يہ چورى ہے؟
اور جب يہ ايسا نہ ہو تو پھر مسلمان شخص اس مال كو كس طرح استعمال كرے؟
اسے كون استعمال كرے گا، اور كيا اسے تقسيم كرنا واجب ہے، اور كسے ديا جائے گا؟ اور خمس سے كيا مراد ہے ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
مسلمانوں كے معركوں ميں حاصل ہونے والى غنيمت كا حكم
سوال: 175176
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے راستے ميں كئى ايك عظيم مقاصد اور غايت كے ليے جہاد فرض كيا ہے، جس ميں دين اسلام كا غلبہ كرنا بھى شامل ہے، اور لوگوں كو دين اسلام كى معرفت دلانا، اور اس مقصد كى حقيقت كا ادراك كرانا بھى مقصود ہے جس كى بنا پر اللہ تعالى نے انہيں پيدا فرمايا ہے.
اور ان مقاصد اور اغراض ميں اس دين اسلام كے دشمنوں كى دشمنى كو ختم كرنا اور دور ہٹانا جو اس دين كے نور كو ختم كرنا چاہتے اور اس دين اور دين كے ماننے والوں كو مليا ميٹ كرنے پر تلے ہوئے ہيں.
اس كى دليل اللہ تعالى كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
جن مسلمانوں سے كافر جنگ كر رہے ہيں انہيں بھى مقابلے كى اجازت دى جاتى ہے، كيونكہ وہ مظلوم ہيں، اور بلاشبہ اللہ تعالى ان كى مدد پر قادر ہے، يہ وہ ہيں جنہيں ناحق ان كے گھروں سے نكالا گيا، صرف ان كے اس قول پر كہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے الحج ( 39 ).
آج جو كچھ بوسنيا، شيشان، كوسوو وغيرہ دوسرے اسلامى ملكوں ميں ہو رہا ہے يہ اسى ميں سے جس كى خبر اللہ تعالى نے كفار كےمتعلق ديتے ہوئے فرمايا تھا:
وہ يہ چاہتے ہيں كہ جس طرح انہوں نے كفر كيا ہے تم بھى اسى طرح كفر كرنے لگو تو تم برابر ہو جاؤ گے.
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
وہ تو يہ چاہتے ہيں كہ كاش تم كفر كا ارتكاب كرو.
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
ان اہل كتاب كے اكثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے كے محض حسد و بغض كى بنا پر تمہيں بھى ايمان سے ہٹا دينا چاہتے ہيں البقرۃ ( 109 ).
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اور آپ سے يہودى اور عيسائى ہرگز راضى نہيں ہوسكتے حتى كہ آپ ان كے دين كى پيروى كرنى شروع كرديں.
اور اسى طرح مسلمانوں اور كفار كے مابين جارى لڑائى وہ تدافع اور دور ہٹانے ميں سے ہے جو اللہ تعالى كى سنن كونيہ ميں سے ہے، جس كا ذكر اللہ تعالى نے اس فرمان ميں اس طرح كيا ہے:
چنانچہ اللہ تعالى كے حكم سے انہوں نے جالوتيوں كو شكست دے دى اور داود عليہ السلام كے ہاتھوں جالوت قتل ہوا، اور اللہ تعالى نے داود عليہ السلام كو مملكت و حكمت اور جتنا كچھ چاہا علم بھى عطا فرمايا، اگر اللہ تعالى بعض لوگوں كو بعض سے دفع نہ كرتا تو زمين ميں فساد پھيل جاتا، ليكن اللہ تعالى دنيا والوں پر بڑا فضل و كرم كرنے والا ہےالبقرۃ ( 251 ).
اور اسى طرح ايك جگہ فرمايا:
يہ وہ ہيں جنہيں ناحق اپنے گھروں سے نكالا گيا، صرف ان كے اس قول پر كہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے، اگر اللہ تعالى لوگوں كو آپس ميں ايك دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجديں اور يہوديوں كے معبد اور وہ مسجديں بھى منہدم كر دى جاتيں جہاں اللہ تعالى كا نام كثرت سے ليا جاتا ہے، جو كوئى اللہ تعالى كى مدد كرے گا اللہ تعالى بھى ضرور اس كى مدد كرے گا، بيشك اللہ تعالى بڑى قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے الحج ( 40 ).
دور حاضر ميں آج مسلمانوں كا صربيوں اور روسيوں اور دوسرے كفار كے خلاف جنگ تو صرف ان كفار كے ظلم و ستم اور زيادتى كو ختم كرنے كے ليے ہے، اور يہ دفاعى جہاد ہے جو شريعت اسلاميہ ميں مشروع ہے، اور اس پر دين اسلام ميں پائے جانے والے جہاد كے سارے احكام لاگو ہوتے ہيں.
اور ان جنگوں اور لڑائيوں ميں جو كچھ مسلمان اسلحہ، اور آلات حرب، اور دوسرا سازوسامان، اور جائداد و بلڈنگيں وغيرہ حاصل كرتے ہيں يہ بالجملہ سب كچھ مسلمانوں كا ہے، اور يہ مال ان كے ليے حلال ہے، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
لھذا جو كچھ حلال اور پاكيزہ غنيمت تم نے حاصل كى ہے خوب كھاؤ پيو.
اور غنيمت سے مراد اورمقصود وہ نقدى اور بعينہ مال وغيرہ ہے جس سے نفع حاصل كيا جائے، اور اسے مجاہدين اللہ تعالى كے راستے ميں كفار سے لڑائى كرتے ہوئے حاصل كرتے ہيں، يہ حاصل كردہ مال كئى ايك وجوہات كى بنا پر چورى ميں شامل نہيں ہوتا:
1 – چورى يہ ہے كہ محفوظ جگہ سے بغير كسى حق كے خفيہ طريقہ سے مال اڑايا جائے، اور يہ تو اس چورى كے بالكل مخالف ہے، جب كہ جہاد كا مال غنيمت اور فئ كے طور پر كفار سے حق كے ساتھ ليا جاتا ہے، اور اس ميں ہمارے ليے شرعى طور پر اجازت ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
لھذا جو كچھ حلال اور پاكيزہ غنيمت تم نے حاصل كى ہے خوب كھاؤ پيو.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا كفار كے ساتھ جہاد اور جنگوں ميں اس پر عمل بھى رہا ہے، اور ان كا سازوسامان سلب بھى كرتے رہے ہيں.
2 – چورى تو معصوم اور محترم مال ميں ہوتى ہے، اور لڑنے والے كفار كا مال معصوم اور محترم نہيں ہے.
3 – اس ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ يہ برابرى كے باب ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے كہ مسلمانوں كے مال سلب كيے گئے اور ان كے حقوق غصب ہوئے اوران كے گھر چھين ليے گئے، تو يہ ان كے حقوق كى واپسى ہے، اور جو كچھ ان كے ہاتھوں سے چھينا گيا ہے اسے واپس لينا ہے، لھذا يہ ان كے حقوق كى واپسى ميں شامل ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے كے بعد ( برابر كا ) بدلہ لے لے تو ايسے لوگوں پر ( الزام كا ) كوئى راستہ نہيں الشورى ( 41 ).
يعنى كوئى گناہ وغيرہ نہيں.
اور اس كے بعد فرمايا:
راستہ تو صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ناحق ظلم و ستم كرتے ہيں.الشورى ( 42 )
جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر مجاہدين كفار كے ساتھ لڑائى ميں جتنا بھى مال حاصل كرتے ہيں وہ مال غنيمت اور مال فئ بنے گا، اور ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ پہلا يعنى غنيمت وہ مال ہے جو لڑائى كر كے حاصل كيا جائے، اور دوسرا يعنى فئ بغير لڑائى كيے حاصل ہوتا ہے، يعنى كفار مال چھوڑ كر بھاگ جائيں، يا بغير لڑے ہى شكست تسليم كرليں.
شرعى طور پر غنيمت ميں واجب يہ ہے كہ امام يا مجاہدين كا امير يا مسئول اور كمانڈر اس مال كو جمع كرے اور اسے پانچ حصوں ميں تقسيم كرے، ايك حصہ تو ان جگہوں ميں تقسيم كيا جائے گا جو مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں مذكور ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
جان لو كہ تم جس قسم كى جو بھى غنيمت حاصل كرو اس ميں سے پانچواں حصہ تو اللہ تعالى اور رسول كا اور رشتہ داروں كا اور يتيموں كا اور مسكينوں كا اور مسافروں كا الانفال ( 41 ).
اور باقى چار حصے لڑائى كرنے والے مجاہدين كے درميان اس طرح تقسيم كيے جائيں گے كہ گھڑ سوار كو تين حصے؛ ( ايك اس كا اور دو گھوڑے كے يہ اس وقت ہے جب لڑائى ميں گھوڑے استعمال ہوں ) اور پيدل كو ايك حصہ ديا جائےگا.
يہ مال مسلمان لشكر اور فوج كے ليے حلال اور پاكيزہ ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے مباح كرتے ہوئے فرمايا:
لھذا جو كچھ حلال اور پاكيزہ غنيمت تم نے حاصل كى ہے خوب كھاؤ پيو.
اور خمس سے مراد وہى ہے جس كى طرف آيت اشارہ كر رہى ہے، اور وہ اس پہلى قسم كا مصرف ہے.
اور وہ يہ ہيں:
1 – اللہ تعالى اور اس كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حصہ:
يہ بغير كسى تعيين كے عام مسلمانوں كے مصالح اور رفاہ عامہ كے كام ميں صرف كيا جائے گا، كيونكہ اللہ تعالى نے اسے اپنے اور اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ركھا ہے، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس سے غنى و بے پرواہ ہيں، تو اس طرح علم ہوا كہ يہ اللہ كے بندوں كے ليے ہے اور جب اللہ تعالى نے كوئى مصرف متعين نہيں كيا تو يہ اس بات كى دلالت ہے كہ يہ عام مصلحت ميں صرف كيا جائے گا.
ديكھيں: تفسير ابن سعدى ( 3 / 169 ).
2 – اس ميں سے ايك حصہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے رشتہ داروں اور بنو ہاشم اور بنى المطلب ميں سے آل بيت كے ليے ہے، اس ميں ان كا مالدار اور فقير مرد و عورت سب برابر ہيں.
3 – يتيم: يہ وہ بچے ہيں جن كے ماں باپ نہيں اور وہ بالغ نہيں ہوئے.
4 – فقراء اور محتاج لوگ.
5 – مسافر، يہ وہ مسافر ہے جس كے پاس زاد راہ ختم ہو جائے اور وہ اپنے علاقے ميں جانے كے ليے مال كا ضرورتمند ہو.
اور بعض مفسرين حضرات كا كہنا ہے كہ: ( غنيمت كا خمس ان صنفوں سے باہر نہيں نكل سكتا، اور نہ ہى يہ لازم ہے كہ ان ميں برابر ہو، بلكہ يہ مصلحت پر منحصر ہے ) شيخ ابن سعدى رحمہ اللہ تعالى نےاسے ہى راجح كہا ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے تفسير ابن كثير ( 2 / 269 ) اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كى زاد المعاد ( 3 / 100 – 105 ) ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب