والد كى جانب سے ميرى ايك بہن ہے، اور اس كے خاوند نے ايك دوسرى عورت سے شادى كر ركھى ہے، دوسرى عورت كى ايك بيٹى ہے جسے ميرى باپ جائى بہن نے دودھ پلايا ہے؛ اس كى وضاحت كچھ اس طرح ہے كہ ميرے والد نے ميرى والدہ سے شادى كرنے سے قبل اس لڑكى كى والدہ كو طلاق دے دى تھى؛ تو كيا ميرے ليے اس سے شادى كرنا جائز ہے؛ حالانكہ ميرى بہن اس سے ميرى شادى نہيں چاہتى ؟
اگر تو آپ كى والد كى جانب سے بہن نے اس لڑكى كو دو برس كى عمر سے قبل پانچ رضعات يعنى پانچ بار دودھ پلايا ہے تو آپ كى بہن اس كى رضاعى بہن بن جائيگى؛ اور آپ اس كے رضاعى ماموں ہونگے؛ اس ليے وہ آپ كے ليے حلال نہيں ہو گى؛ كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” رضاعت سے بھى وہى حرمت ثابت ہوتى ہے جو نسب سے حرام ہو “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2645 ).
اس ميں كوئى شك نہيں كہ اگر وہ لڑكى آپ كى نسبى بہن ہوتى تو آپ پر حرام تھى تو اسى طرح رضاعت سے بھى بہن حرام ہوگى.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 27280 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
واللہ اعلم.