میں نے قسم توڑ دی تو اس کا کفارہ دینا چاہتا ہوں، لیکن مجھے اپنے بارے میں یقین نہیں ہے کہ میں دس مساکین کو کپڑے یا کھانا دے سکتا ہوں یا نہیں؟ کیونکہ مجھے کچھ تنگی تو ہو گی لیکن عموماً دیکھا جائے تو میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں، تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ دس مساکین کو جو کھانا یا کپڑا میں نے دینا ہے بنیادی طور پر وہ مجھے میرے گھر والوں نے دینا ہے؛ کیونکہ میں اب بھی انہی سے خرچہ لیتا ہوں اور انہی کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرتا ہوں، تو کیا اس حالت میں کفارہ پورا ہو جائے گا؟ میں نے اپنی قسم کو توڑنے کی وجہ سے تین دن کے روزے رکھے ہیں، لیکن میرے دل میں شک ہے کہ میرے روزے قبول نہیں ہوئے، اس لیے میں نے آپ کے سامنے سوال رکھا ہے، مجھے امید ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمائیں گے۔
قسم کے کفارے کا روزہ رکھا، اب اسے اپنے روزے کے متعلق شک ہے کیونکہ وہ کفارے میں کھانا کھلا سکتا ہے۔
سوال: 178167
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ تعالی نے قسم کا کفارہ سورۃ المائدہ میں ترتیب وار ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
ترجمہ: اللہ تمہاری لغو قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کا لباس ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو۔ اور (بہتر یہی ہے کہ) اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ [المائدہ: 89]
قسم کا کفارہ دینے والا شخص تین میں سے کوئی ایک کام کرے گا:جو متوسط کھانا آپ کھاتے ہیں اس میں سے 10 مساکین کو کھانا کھلائیں۔ یا انہیں لباس دیں۔ یا غلام آزاد کریں۔ اگر کوئی شخص ان تین میں سے کوئی ایک عمل کرتا ہے تو وہ بری الذمہ ہو جائے گا ، لیکن اگر مذکورہ تینوں میں سے کوئی بھی کام نہیں کر سکتا تو پھر روزے کی جانب منتقل ہو گا، تو تین دن کے روزے رکھے گا۔
قسم کا کفارہ دینے کے لیے واجب مقدار ہر مسکین کے لیے نصف صاع ہے، یعنی تقریباً اڑھائی کلو چاول وغیرہ، اور اگر اس کے ساتھ سالن وغیرہ بھی ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے، ویسے یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ 10 مساکین کو دوپہر کا کھانا کھلا دیں یا رات کا کھانا کھلا دیں، اور لباس کی صورت میں ہر مسکین کو ایک جبہ [لمبی عربی قمیص ] دینا کافی ہو گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (45676 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اگر کھانا کھلانے ، یا لباس پہنانے یا غلام آزاد کرنے کی استطاعت ہو تو روزے رکھنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ترجمہ: تو جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ [المائدۃ: 89]
ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر کوئی قسم اٹھانے والا قسم توڑ دے اور اس کے پاس کھانا کھلانے، یا لباس دینے یا غلام آزاد کرنے کی استطاعت ہو تو روزے رکھنا اس کے لیے کافی نہیں ہو گا۔" ختم شد
"الإجماع" (157)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کسی معاملے میں قسم اٹھاتا ہے لیکن پھر اپنی قسم کو توڑ دیتا ہے، پھر کھانا کھلانے کی استطاعت ہونے کے باوجود روزے رکھ کر کفارہ دے دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کا روزہ رکھنا کافی ہو گا حالانکہ اللہ تعالی نے قسم کے کفارے میں کھانا کھلانے کا تذکرہ پہلے کیا ہے پھر عدم استطاعت کی صورت میں روزوں کا ذکر کیا ہے۔ اگر اسے ترتیب کا علم نہ ہو تو کیا حکم بدل جائے گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر کوئی شخص قسم کا کفارہ دیتے ہوئے روزے رکھ لے حالانکہ وہ 10 مساکین کو کھانا یا کپڑے دینے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس کے روزے نفل شمار ہوں گے اور اسے کفارہ دینا ہو گا، لیکن روزے ضائع نہیں ہوں گے بلکہ نفل شمار ہوں گے ، اسے چاہیے کہ مساکین کو کھانا کھلائے۔
لوگوں کے ہاں مشہور یہی ہو چکا ہے کہ قسم کا کفارہ روزے رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے کہے : تجھے اللہ کی قسم توں نے یہ کام کرنا ہے۔ تو وہ آگے سے یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ: مجھے تین روزے رکھنا لازم نہ کر دینا۔ تو یہ بات غلط ہے؛ کیونکہ کفارے میں پہلے کھانا کھلانا، یا کپڑے دینا، یا پھر غلام آزاد کرنا ہے، اگر ان میں سے کسی کام کی استطاعت نہیں رکھتا تو پھر تین مسلسل روزے رکھنے ہیں۔" ختم شد
"اللقاء الشهري" (لقاء رقم/70، سؤال رقم/10)
روزے کی جانب منتقل ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ: انسان کے پاس ایک دن کی اپنی یومیہ خوراک، بنیادی ضروریات ، رہائش، سواری، اور خادم وغیرہ سے فاضل چیز نہ پائے تو پھر روزے رکھے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغني" (10/18- 20) میں کہتے ہیں:
"وہ شخص کفارے میں روزے رکھے گا جس کے پاس اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ایک دن اور رات سے زائد خوراک میں کفارے کی مقدار کا کھانا نہ ہو" آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: "کفارہ اس مال میں سے دینا ہو گا جو بنیادی ضروریات سے فاضل ہو، جبکہ رہائش، سواری اور خادم وغیرہ بنیادی ضروریات ہیں۔" ختم شد
اس بنا پر: جس وقت آپ نے روزہ رکھ کر کفارہ دیا کیا اس وقت آپ کے پاس اتنی استطاعت تھی کہ 10مساکین کو کھانا کھلائیں اور یہ آپ کی ذاتی اور بنیادی ضروریات سے فاضل بھی ہو؟ چاہے یہ رقم خود محنت کر کے کمائی ہو یا اپنے گھر والوں سے لی ہو۔
لہذا اگر آپ کے پاس وقت اس کی استطاعت تھی تو پھر آپ کے روزے آپ کے لیے نا کافی ہوں گے، اور اگر آپ کے پاس استطاعت نہیں تھی تو آپ کے روزے کافی ہیں۔
اگر اس بارے میں شک ہو تو پھر کفارہ دوبارہ دے دیں تا کہ آپ یقینی طور پر بری الذمہ ہو جائیں۔
اگر صورت حال کچھ یوں ہو کہ جس وقت آپ نے روزے رکھے تو اس وقت تو آپ کفارے میں کھانا یا لباس دے سکتے تھے اور آپ کے رکھے ہوئے روزے ناکافی ہوئے ، لیکن آج آپ کے پاس کھانا یا لباس دینے کی استطاعت نہیں ہے تو پھر اب بھی آپ تین روزے ہی رکھیں گے؛ کیونکہ آپ اب کھانا یا لباس یا غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات