0 / 0
23,56106/03/2016

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دینے کے بارے میں منقول عتبی کا قصہ اور اسکا جواب

سوال: 179363

سوال: میں نے ایک مضمون پڑھا ہے جس میں میرے خیال کے مطابق مضمون نگار نے دلائل اور مصادر صحیح ذکر کیے ہیں، لیکن مجھے ایک ایسے صاحب علم کی ضرورت ہے جو مجھے اس مضمون کے متعلق بتلا سکے، مقالہ کچھ یوں ہے:

“بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن کریم کی روشنی میں وسیلہ لینے کا عقیدہ

فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًاہم نے رسولوں کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ ان کی اللہ کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے، اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ [النساء : 64]

ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس عقیدے کو بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں: ایک بڑی جماعت نے عتبی نامی شخص کا ایک مشہور و معروف واقعہ ذکر کیا ہے ان میں ابو منصور صباغ بھی شامل ہیں:

“عتبی کا کہنا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ایک دیہاتی شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر سلامتی ہو، میں نے اللہ کا کلام سنا ہے کہ : وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔۔ [النساء : 64] اب میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی بخشش چاہنے کیلئے آیا ہوں اس کیلئے آپ کو اپنے رب کے ہاں وسیلہ بناتا ہوں، اس کے بعد وہ دیہاتی شخص شعروں میں کہنے لگا: جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے میدان اور ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان سب سے بہترین ہستی ، میری جان اس قبر پر سے قربان ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں عفت، سخاوت اور کرم مدفون ہے۔

اس کے بعد وہ دیہاتی آدمی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ نے مجھے فرمایا: عتبی اٹھو اور اس دیہاتی کو خوشخبری دے دو کہ اللہ تعالی نے اسے بخش دیا ہے” اس روایت کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ اسے ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے روایت کیا ہے، اور یہ مشہور حکایات میں سے ہے، ہم سب کو علم ہے کہ ابن کثیر کا عقیدہ صحیح تھا، اور انہوں نے یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانے کے صحیح ہونے کی وجہ سے ہی ذکر کیا ہے” مضمون ختم ہوا

اب آپ کی اس مضمون کے بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

پہلے سوال نمبر: (3297) میں شرعی وسیلے کی اقسام بیان کی گئی ہیں، مختصر طور پر  ان کا ذکر کرتے ہیں:

· اللہ تعالی کے اسما و صفات کا وسیلہ

·ایمان اور  عقیدہ توحید کو وسیلہ بنایا جائے

·نیک اعمال کو وسیلہ بنائیں

·نیک شخص سے اللہ تعالی کے حضور دعا کروائیں

پہلے سوال نمبر: (114142) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یا کسی بھی نیک صالح شخص  کی شان  کا وسیلہ لینا حرام ہے، کیونکہ ایسا وسیلہ شرک کے ذرائع میں سے ہے۔

دوم:

کچھ اہل علم نے بدعتی وسیلے کو جائز قرار دینے کیلئے فرمانِ باری تعالی:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے ( تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ [النساء : 64] کو دلیل بناتے ہوئے مذکورہ دیہاتی کا قصہ ذکر کیا ہے، یہ دلیل بالکل درست نہیں ہے، بلکہ مردود موقف ہے، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1-فرمانِ باری تعالی: ” وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ “ترجمہ:اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے” یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیساتھ خاص ہے، آپ کی وفات کے بعد نہیں ہے؛ کیونکہ آیت کے اگلے الفاظ ہیں: ” فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ” [ترجمہ:اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے] اب جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آئیں اور اللہ تعالی سے استغفار کریں تو انہیں یہ کہاں سے پتا چلے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر میں ان کیلئے استغفار کیا ہے، تبھی تو انہیں اللہ تعالی کی طرف سے یہ آیت: ” لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا ” [ترجمہ: تو وہ اللہ تعالی کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے] میں مذکور بدلہ پائیں گے۔

بلکہ اگر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آپ کی وفات کے بعد اس  مقصد سے آئیں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا سبب ہوگا، جو کہ غیر اللہ سے مدد مانگنے کے زمرے میں آتا ہے، اور آج کل لوگ یہاں آ کر یہی کچھ کرتے ہیں، حالانکہ یہ شرک ہے۔

ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سلف صالحین اور متاخرین میں سے سب نے اس آیت کا یہی مفہوم سمجھا ہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے تعلق رکھتی ہے، چنانچہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس غرض سے آتے تھے، بلکہ اللہ تعالی نے ایسی صورت حال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع نہ کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے اور ان کے بارے میں منافق ہونے کی خبر بھی دی، چنانچہ  فرمایا:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ
ترجمہ: جب ان [منافقوں] سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لیے رسول اللہ استغفار کرینگے تو وہ اپنے سروں کو جھٹک دیتے ہیں، اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ تکبر کی بنا پر آپ کے پاس آنے  سے رُک جاتے ہیں۔[المنافقون : 5] یہ آیت اس منافق کے بارے میں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کعب بن اشرف اور دیگر طاغوتوں کے فیصلے پر راضی ہو گیا ، اور اس طرح اپنی جان پر ظلم کر بیٹھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں آیا کہ اس کی غلطی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے استغفار ہی کر دیں؛ کیونکہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس استغفار کیلئے آنا توبہ اور گناہ سے خلاصی کا ذریعہ تھا، اور یہ صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عادت بنی ہوئی تھی کہ جب بھی کسی سے کوئی توبہ کا موجب بننے والا گناہ سر زد ہوتا تو فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنی حالت بیان کرتا کہ : یا رسول اللہ! مجھ سے یہ غلطی ہو گئی ہے، آپ میرے لیے اللہ تعالی سے استغفار کریں، یہ صحابہ کرام اور منافقین کے درمیان بنیادی فرق تھا ۔

چنانچہ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلا لیا، اور انہیں فانی دنیا سے عالم برزخ میں منتقل کر دیا تو کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر یہ نہیں کہتا تھا کہ  :یا رسول اللہ! مجھ سے فلاں غلطی ہو گئی ہے میرے لیے استغفار کریں،  اب اگر کوئی صحابہ کرام سے ایسی بات نقل کرتا بھی ہے تو اعلانیہ جھوٹ اور بہتان بازی سے کام لے رہا ہے۔

کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین کرام – جو کہ علی الاطلاق خیر القرون سے تعلق رکھتے ہیں – ایسے واجب کو ترک کر سکتے ہیں جسے چھوڑنے پر اللہ تعالی نے مذمت بیان کی ہو؟ بلکہ اسے ترک کرنے کو منافقت کی علامت قرار دیا ہو! اور اسے ایک ایسا شخص سر انجام دے جسے لوگ کسی کھاتے میں شمار نہیں کرتے، اور نہ ہی اسے اہل علم گردانتے ہیں؟!!

ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ محدثین، فقہا، اور مفسرین یعنی اسلام کے بڑے بڑے ائمہ کرام اور علم بردار  لوگ اس عمل سے بالکل غافل رہیں!! اس امت کے خیر خواہ یہ کام کبھی نہ کریں! نہ ہی اس کی ترغیب دلائیں! کسی کو اس کام کی رہنمائی بھی نہ کریں! اور خود بھی کبھی بھی سر انجام نہ دیں!!” انتہی
“الصارم المنكی” (ص 425-426) طبعہ: الانصاری، مزید کیلئے دیکھیں: “تفسیر طبری” (8 /517) اور  “تفسیر سعدی” (ص 184)

2-عتبی کا مذکورہ قصہ سخت ضعیف ہے، اس کی سند صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی اسے دلیل بنایا جا سکتا ہے، اسے دلیل وہی بناتا ہے جو لوگوں کو دین سے دور کرنا چاہتا ہے، اور انہیں رب العالمین کی شریعت سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔

اس قصہ کو بیہقی نے “شعب الایمان”  (6/60/3880) میں نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
“ہمیں ابو علی روذباری نے بتلایا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمرو بن محمد بن عمرو حسین بن بقیہ نے تحریر کروایا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شکر ہروی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یزید رقاشی نے  محمد بن روح بن یزید بصری  بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو حرب ہلالی سے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ: ایک دیہاتی حج کیلئے  آیا اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے پاس پہنچا تو اپنی اونٹنی کو بٹھا کر  اس کا گھٹنا باندھا اور مسجد میں آ گیا، اور قبر مبارک کے سامنے پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا” یا رسول اللہ!  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں گناہوں اور خطاؤں کا بوجھ لیکر آپ کے پاس آیا ہوں، آپ کے رب کی بارگاہ میں آپکی شفاعت پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ [النساء : 64]  اور میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں آپ کے پاس گناہوں اور خطاؤں کا بوجھ لیکر  آیا ہوں، آپ میری اپنے پروردگار کے سامنے شفاعت فرمائیں، کہ اللہ تعالی میرے گناہ معاف کر دے اور میرے بارے میں آپ کی شفاعت قبول فرمائے، پھر اس کے بعد وہ دیہاتی لوگوں کے رو برو [بحر بسیط کے وزن پر]کہنے لگا:
جن جن کی ہڈیاں مٹی میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے  زمین اور ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان سب سے بہترین ہستی ۔

میری جان اس قبر پر سے قربان ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں عفت، سخاوت اور کرم مدفون ہے

کچھ روایات کے مطابق اس نے پہلے شعر میں زمین کی بجائے بیابان کے لفظ استعمال کیے ہیں” انتہی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” شافعی اور حنبلی متاخرین فقہائے کرام میں سے کچھ نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے، اور ایسی غیر ثابت شدہ حکایت سے شرعی حکم اخذ کیا ہے جو اگر مستحب یا مندوب بھی ہوتا تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کو اس کا ادراک زیادہ ہوتا، بلکہ وہ اسے بجا لا کر عملی نمونہ بھی قائم کرتے، بلکہ اس دیہاتی آدمی کی ضرورت پوری ہونے کےکئی اور اسباب بھی ہیں جو میں نے اپنی دیگر تالیفات میں نقل کیے ہیں؛ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کسی کی کوئی ضرورت کسی وجہ سے پوری ہو تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ وجہ شرعی طور پر درست تھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے آپ کی زندگی میں سوالی آ کر سوال کرتا تو آپ اسے نظر انداز نہ کرتے حالانکہ اس وقت سائل کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا شرعی طور حرام ہوتا تھا” انتہی
“اقتضاء الصراط المستقيم” (1/289)

امام حافظ ابو محمد بن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کچھ لوگ عتبی کا قصہ بیان کرتے ہیں یہ بلا سند ہے، کچھ نے اسے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا ہے اور  کچھ نے محمد بن حرب عن ابی الحسن زعفرانی عن الاعرابی کی سند سے بیان کیا ہے۔

نیز بیہقی نے اسے شعب الایمان میں کمزور ترین  سند سے بیان کیا ہے: محمد بن روح بن یزید بصری  بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو حرب ہلالی سے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ: ایک دیہاتی حج کیلئے  آیا اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے پاس پہنچا تو اپنی اونٹنی کو بٹھا کر  اس کا گھٹنا باندھا اور مسجد میں آ گیا، اور قبر مبارک کے سامنے پہنچا۔ اس کے بعد پہلے ذکر شدہ روایت بیان کی، کچھ کذاب راویوں نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اس کی سند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک بھی پہنچا دی، جیسے کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ:
دیہاتی کا یہ واقعہ اس پایہ کا نہیں ہے کہ اسے دلیل بنایا جائے، اس کی سند سیاہ ترین اور خود ساختہ ہے، اس کے الفاظ بھی خود ہی بنائے گئے ہیں، بفرض محال اگر یہ ثابت ہوتی بھی تو اس میں دعوی ثابت کرنے کی سکت ہی نہیں ہے، اس لیے اس قسم کے قصے کہانیوں کو دلیل بنانا اور ان پر اعتماد کرنا اہل علم  کا شیوہ نہیں ہے، اللہ تعالی ہی توفیق دے” انتہی
“الصارم المنكي في الرد على السبكي” صفحہ: (338) طبعہ: الانصاری

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ سند سیاہ ترین اور ضعیف ہے، مجھے  ایوب ہلالی اور اس سے اوپر کے راوی کا علم نہیں ہے کہ وہ کون ہے؟ جبکہ ابو یزید رقاشی کو ذہبی نے ” المقتنى في سرد الكنى ” ( 2 / 155 ) میں ذکر کر کے اس کا نام تک واضح نہیں کیا، اور اس کے بارے میں عدم علم کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: “اس نے  کوئی حکایت بیان کی ہے” اور مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے اسی حکایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہ واضح طور پر منکر حکایت ہے، اس کیلئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ دیہاتی آدمی ہی مجہول ہے اس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں ہے، لیکن پھر بھی ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے آیت ” وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ” کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ذکر کر دیا ہے، اور وہاں سے ہوس و بدعت پرست لوگوں نے آگے پھیلایا، جن میں شیخ صابونی بھی ہیں انہوں نے اس مکمل  حکایت کو مختصر تفسیر ابن کثیر: (1/410) میں بھی بیان کیا ہے، بلکہ وہاں اس میں کچھ اضافہ بھی ہے کہ:  عتبی کہتا ہے کہ: دیہاتی آدمی اس کے بعد وہاں سے چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی ، تو مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں ملے اور کہا: عتبی! اٹھو اور  اس دیہاتی کو تلاش کر کے خوش خبری دے دو کہ: اللہ تعالی نے اسے بخش دیا ہے۔

یہ قصہ ابن کثیر میں کسی بھی معروف محدث کی طرف منسوب نہیں ہے، بلکہ یہ عتبی سے ہی بیان ہوا ہے، اور عتبی کا ذکر اس واقعہ کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتا، ہو سکتا ہے کہ یہ عتبی بیہقی کی سند کے مطابق ایوب ہلالی ہو!

بہر صورت یہ روایت منکر بلکہ باطل ہے، کیونکہ یہ کتاب و سنت سے متصادم ہے، اور اسے صرف بدعتی ہی بیان کرتے ہیں ؛ کیونکہ انہیں اس حکایت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کی راہ ملتی ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے شفاعت کا مطالبہ کرنے کو جائز قرار دیتی ہے، حالانکہ یہ بات سب سے بڑا باطل  موقف ہے، اس کی تفصیلات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں بیان کی ہے، جیسے کہ ان کی کتاب: “توسل اور وسیلہ” میں ہے، انہوں نے اس کتاب میں عتبی کے اس قصہ کو مکمل طور پر مسترد  کیا ہے” انتہی
“السلسلة الصحيحة” (6 /427)

اسی طرح شیخ صالح آل شیخ حفظہ اللہ کہتے ہیں:

1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، اور قرون مفضلہ میں تابعین کے عمل سے ثابت نہیں ہے بلکہ ایک مجہول شخص کا قصہ اور واقعہ ہے، جس کی سند بھی ضعیف ہے ایسے واقعہ کو عقیدہ توحید کے بارے میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟! بلکہ اس واقعہ سے متصادم کئی صحیح احادیث موجود ہیں جن میں قبروں، اور نیک لوگوں کے بارے میں غلو کرنے سے عام طور پر منع کیا گیا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے بارے میں غلو کرنے سے خصوصی طور پر منع کیا گیا ہے۔

اگر کچھ علمائے کرام نے اسے نقل کیا ہے یا اسے اچھا سمجھا ہے تو یہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ صحیح نصوص سے متصادم واقعہ ہے، اور سلف صالحین کے عقیدہ سے بھی ٹکراتا ہے، اور ایسا ممکن ہے کہ کچھ علمائے کرام سے ایسی چند باتیں پوشیدہ رہ جائیں جو دوسروں کیلئے روزِ روشن کی طرح عیاں تھیں، ویسے بھی علمائے کرام بسا اوقات ایک رائے جب قائم کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ مخالف کی رائے دلیل کے مطابق ہو، چنانچہ جب ہمیں سیدھے راستے کے بارے میں علم ہوگیا ہے تو اب ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسے کس نے بیان کیا ہے اور کس کس نے اسے دلیل بنایا ہے، کیونکہ ہمارے دین کی بنیاد فرضی قصوں ،کہانیوں، اور خوابوں پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہمارا دین صحیح اور واضح دلائل پر مبنی ہے۔

2-کچھ مسائل اور مفاہیم شرک و کفر کی دلدل سے نکلنے والے نئے افراد سے مخفی رہ سکتے ہیں ، جیسے کہ کچھ صحابہ کرام نے یہ کہہ دیا تھا کہ: “ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر کر دیں جیسے ان کا ذات انواط ہے” تو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ تو تم نے وہ بات کر دی جو موسی علیہ السلام کے ساتھیوں نے کی تھی کہ “اجْعَلْ لَنَا إِلَهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ “[ہمارے لیے بھی الہ بنا دیں جیسے ان کے الہ ہیں]) ” یہ حدیث صحیح ہے۔

یہاں ہمارے اس دعوے کی دلیل یوں ہے کہ: یہ جملے کہنے والے صحابہ کرام  ہی تھے لیکن وہ ابھی نو مسلم تھے، اور وہ لا الہ الا اللہ پڑھ کر اسلام میں نئے داخل ہوئے، کلمہ طیبہ کا مطلب یہ ہے کہ ہمہ قسم کے شرکیہ اعمال سے انسان الگ تھلگ ہو جائے ، لیکن اس کے باوجود کچھ مسائل حقیقی طور پر لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں سے کچھ کے ذہن سے اوجھل رہ گئے ۔

اس لیے اصل طریقہ کار یہ ہے کہ جب دلیل واضح ہو جائے ، حجت  قائم ہو جائے تو پھر اس کے مطابق عمل کرنا واجب اور لازمی ہوتا ہے، لا علم شخص کا عذر تو قبول ہو سکتا ہے جیسے ان صحابہ کرام کا عذر ان کے اس مطالبے میں قبول کیا گیا ، تو دیگر علمائے کرام  بھی غلطی میں پڑ سکتے ہیں کہ ان سے بھی کوئی مسئلہ توحید و شرک سے متعلق اوجھل رہ گیا ہو، تو انہیں بھی قابل عذر  سمجھا جائے ۔

3-کسی میں اتنی  جرأت کیسے پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی واضح نصوص کے مقابلے میں کسی دل لبھاتی حکایت کو لے آئے ، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
(فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )
ترجمہ: نبی کے احکامات کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں کوئی فتنہ یا درد ناک عذاب ہی نہ پکڑ لے[ النور:63]

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مجھے ایسی قوم پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ صحیح سند  جانتے بوجھتے ہوئے بھی سفیان کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )
ترجمہ: نبی کے احکامات کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں کوئی فتنہ یا درد ناک عذاب ہی نہ پکڑ لے[ النور:63] تم جانتے ہوئے کہ “فتنہ” سے کیا مراد ہے؟  فتنہ سے مراد شرک ہے، ہو سکتا ہے کہ جب کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی سی بات کو مسترد کرے تو دل میں گمراہی جا گزین  ہو جائے اور بندے کو ہلاک کر دے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر کسی کی اطاعت سے مقدم ہے، چاہے وہ اس امت کے افضل ترین فرد ابو بکر، عمر  رضی اللہ عنہما ہی کیوں نہ ہوں، جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:
“خدشہ ہے کہ تم پر آسمان سے سنگ باری نہ ہو جائے : میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور تم کہتے ہو کہ ابو بکر اور عمر نے کہا؟!”

اگر ابن عباس رضی اللہ عنہما عتبی کے غیر ثابت شدہ منکر قصہ کی وجہ سے سنتوں کو رد کرنے والے ان لوگوں کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیا رائے ہوتی!!

احادیث اور سنت نبوی کا مقام ان سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں بہت بلند ہے، جو کہ بدعتی نظریات رکھنے والوں کے قصے کہانیوں سے کہیں بلند ہے، یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ بدعتی لوگوں کے نظریات خوابوں اور قصے کہانیوں پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے چھٹکارا پائیں اور اتباع صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کریں، خیال اور دھیان رکھنا کہ کہیں کوئی صحیح حدیث  سخت ضعیف قسم کے قصے کہانیوں کی وجہ سے رد مت کر دینا، عین ممکن ہے کہ ایسا کرنے والے کے دل میں فتنہ ڈال دیا جائے اور وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

4-کسی بھی عالم کے اختیار کردہ موقف کو رد کرنے دے دو طریقے ہیں: یا تو وہ محض ان کی اپنی رائے تھی اس لیے رد کر دیا جائے یا پھر ان کے موقف کی دلیل بہت کمزور تھی ، تاہم انہیں اس بارے میں قابل عذر سمجھا جائے گا کہ ان کیلئے دلائل اسی حد تک واضح ہوئے اور انہوں نے اسی کے مطابق اپنا موقف اپنا لیا، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص مجتہدین کے اجتہادات اور رخصتوں کو تلاش کر کے عمل کرنا شروع کر دے تو اسلام سے نکل کر کسی اور دین میں پہنچ جائے گا! اسی لیے کہا گیا ہے کہ رخصتیں  تلاش کرنے والا بے دین ہو جاتا ہے۔

اگر کوئی بد نیت  اور گمراہ فسادی شخص اپنی ہوس پرستی کی آگ بجھانے کیلئے رخصتوں کی ٹوہ میں لگا رہے تو حکمرانوں پر  اسے روکنا اور تعزیری سزا دینا واجب ہے، یہ بات ائمہ اربعہ  کی فقہ میں مشہور و معروف ہے۔

اگر کسی نے اپنے جرم کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا  کہ اس نے کسی عالم کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے ایسا کیاہے ، اور اس عالم کی غلطی معلوم ہو چکی ہو تو اس مجرم کا عذر مقبول ہوگا اور اسے سزا نہیں دی جائے گی” انتہی
“هذه مفاهيمنا” (ص 81-83)

سوم:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مسلمانوں کے عظیم  عالم، اور صحیح العقیدہ  و سلیم المنہج صاحب علم ہیں ، اور اگر عتبی کا واقعہ انہوں نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ اسے دلیل سمجھتے ہیں، بلکہ اس واقعہ کو انہوں نے ایسے ہی ذکر کیا ہے جیسے کہ دیگر اسرائیلی روایات، اور منقطع واقعات  ذکر کیے ہیں، اور اہل علم کسی بھی موضوع سے متعلق اس قسم کی روایات و حکایات بیان کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ ان روایات و حکایات کو دلیل نہیں بناتے، یہ دلیل اسی وقت ہی بنے گے جب اس کی صراحت موجود ہو، اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو  دلیل کے طور پر ہی ذکر کیا ہے۔

چنانچہ اس بارے میں شیخ صالح آل شیخ حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“ابن کثیر نے اسے اپنی سند سے روایت نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنی تفسیر میں یوں لکھا ہے کہ: کچھ لوگوں نے ذکر کیا ہے جن میں ابو منصور صباغ بھی شامل ہیں، انہوں نے اپنی کتاب “الشامل” میں مشہور حکایت عتبی سے بیان کی ہے۔
یہ روایت کا انداز نہیں ہے ، بلکہ انہوں نے محض اس کا تذکرہ کیا ہے۔

اسی طرح ابن قدامہ نے بھی اسے “المغنی” (3/557)میں روایت نہیں کیا بلکہ صیغہ تمریض کیساتھ  نقل کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
“عتبی سے بیان کیا جاتا ہے کہ ۔۔۔ [آگے مکمل قصہ ہے]” صیغہ تمریض کیساتھ واقعہ کو ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ ضعیف ہے” انتہی
“هذه مفاهيمنا” (ص 80-81)

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android