0 / 0
4,31607/08/2012

كفالت ميں يتيم بچے كا فطرانہ ادا كرنا واجب ہے

سوال: 179748

بہت سارے افراد يتيم بچوں كى كفالت كرتے ہيں، كيا انہ پر يتيم بچے كا فطرانہ ادا كرنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

فطرانہ ہر مسلمانبچے بوڑھے مرد و عورت پر فطرانہ ادا كرنا فرض ہے؛ اس كى دليل درج حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہتعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

” رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم نے ہر آزاد اور غلام مرد و عورت مسلمان شخص پر رمضان المباركميں ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو فطرانہ فرض كيا “

صحيح بخارى حديثنمبر ( 1504 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 984 ).

اس ليے يتيم بچےپر فطرانہ فرض ہوگا، كيونكہ وہ بھى عام لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.

اس بنا پر جس كىكفالت ميں كوئى يتيم ہو تو وہ اس كا بھى فطرانہ ادا كريگا، اگر يتيم كا مال ہو تواس كے مال سے فطرانہ ادا كيا جائے، كيونكہ اس كے مال ميں زكاۃ واجب ہے،كفالت كرنے والے پر يتيم كا فطرانہ واجب نہيں ہوگا؛ كيونكہ يتيم غنى اور مالدارہے، اور اگر كفالت كرنے والا شخص اس بچے كا اپنى جانب سے فطران ادا كرتا ہے توادائيگى ہو جائيگى اور اسے اجروثواب حاصل ہوگا، ليكن اس پر فرض نہيں كہا جائيگا.

امام نووى رحمہاللہ كہتے ہيں:

” جس يتيمبچے كى ملكيت ميں مال ہو ہمارے نزديك اس كے مال ميں سے فطرانہ ادا كرنا واجب ہوگا،جمہور علماء كرام جن ميں ابو حنيفہ اور امام مالك اور ابن منذر رحمہم اللہ شاملہيں كا يہى مسلك ہے ” انتہى

ديكھيں: المجموع( 6/ 109 ).

بھوتى رحمہ اللہكہتے ہيں:

” اوپر بيانكردہ حديث كى بنا پر ہر بچے بوڑھے مرد و عورت مسلمان شخص پر فطرانہ كى ادائيگى فرضہيں… چاہے بچہ يتيم بھى ہو اس كے مال ميں سے فطرانہ ادا كرنا واجب ہے امام احمدرحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے ” انتہى

ديكھيں: كشافالقناع ( 2 / 247 ).

ليكن اگر يتيم كامال نہ ہو تو پھر فطرانہ اس كے رشتہ داروں ميں سے اس شخص پر فرض ہوگا جس كے ذمہيتيم بچے كا نفقہ شرعا واجب ہے، ليكن كفالت كرنے والے پر لازم نہيں كيونكہ اگر اسگے ذمہ شرعا يتيم كا نفقہ واجب نہيں تو كفالت كى بنا پر يتيم كا فطرانہ ادا كرنااس پر واجب نہيں ہو گا كيوكہ وہ تو اللہ كے ليے يتيم كى كفالت كر رہا ہے.

جمہور علماء كرامجن ميں امام ابو حنيفہ امام شافعى اور امام مالك شامل ہيں كا مسلك يہى ہے؛ ان كاكہنا ہے كہ فطرانہ ہر مسلمان شخص اور ہر اس شخص پر واجب ہے جن كے ذمہ ان كےاخراجات لازم ہيں، اور يتيم كى كفالت كرنے والا تو نفقہ اللہ كے ليے كر رہا ہے اسليے يتيم كا فطرانہ اس پر فرض نہيں ہوگا، بلكہ جس كے ذمہ شرعا يتيم كا خرچ ہےفطرانہ بھى اس پر ہى واجب ہوگا.

امام احمد بنحنبل رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ جو كوئى شخص بھى رمضان المبارك ميں كسى دوسرے شخص پركچھ خرچ كرے چاہے واجب نہيں بلكہ نفلى طور پر ثواب حاصل كرنے كے ليے تو اس شخص پراس كا فطرانہ بھى ادا كرنا واجب ہوگا.

امام احمد رحمہاللہ نے بيان كيا ہے كہ جس نے كسى يتيم كو اپنى كفالت ميں ليا تو اس پر ا س كافطرانہ بھى واجب ہو گا، ليكن بعض حنابلہ ” مثلا ابن قدامہ ” نے اختياركيا ہے كہ اس پر فطرانہ واجب نہيں، انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ كے سابقہ قول كواستحباب پر محمول كيا ہے “

ديكھيں: المغنى (4/306 ) اور الشرح الكبير ( 7 / 97 ).

حاصل يہ ہوا كہ:جس شخص پر يتيم كا نفقہ واجب نہيں اس پر اس كا فطرانہ ادا كرنا واجب نہيں ہوگا،بلكہ اگر يتيم بچے كا مال ہو تو اس كے مال سے فطرانہ ادا كيا جائيگا، اور اگر مالنہ ہو تو پھر اس كے جس رشتہ دار پر يتيم كا خرچ شرعا واجب ہے اس پر فطرانہ بھىواجب ہوگا.

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android