ميرى كفالت ميں كچھ يتيم بچے ہيں ان كا والد كچھ برس قبل فوت ہو گيا تھا، اور ان كى آمدن پنشن ہے جو ساڑھے تين ہزار ريال ماہانہ ہے، ان برسوں ميں ميرے پاس بہت زيادہ رقم جمع ہو گئى ہے، جن ميں تقريبا ڈيڑھ لاكھ ريال زكاۃ كے ہيں، تو كيا ميں ان كے ليے زكاۃ لينے سے رك جاؤں، اور جو زكاۃ كا مال ميرے پاس موجود ہے اس كا كيا كروں؟
اور اگر ہاوسنگ ادارے كى جانب سے ان كى كوئى بلڈنگ ہو جس پر دو لاكھ چاليس ہزار باقى ہو تو كيا ميں برى الذمہ ہونے كے ليے اس رقم سے ادائيگى كرسكتا ہوں؟
اور اگر انہيں بلديہ كى طرف سے كوئى زمين الاٹ ہوئى ہو تو كيا اس رقم سے ہم اس كى چارديوارى كر سكتے ہيں ؟
يتيموں كى جائداد وغيرہ كى زكاۃ كے مال سے اصلاح كرنا
سوال: 1816
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پہلى بات تو يہ ہے كہ آپ كے ليے حلال نہيں كہ ان يتيم بچوں كے پاس اگر ان كى ضروريات پورى كرنے كے ليے مال ہے تو آپ زكاۃ كى رقم ليں، كيونكہ زكاۃ تو فقراء اور مساكين كے ليے ہے، نہ كہ يتيموں كے ليے، اور ان كے غنى اور مالدار ہونے كے باوجود آپ نے جو زكاۃ كا مال اكٹھا كيا ہے اگر تو آپ ان كے مالكان كو جانتے ہيں تو انہيں واپس كرديں، اور اگر ان كا علم نہيں ركھتے تو مالكان كى جانب سے صدقہ كى نيت كرتے ہوئے صدقہ كر ديں، كيونكہ آپ نے ان سے زكاۃ كى نيت سے مال حاصل كيا ہے.
اور وہ مال جو آپ نے پنشن كا جمع كيا ہے، اس ميں آپ كو جو چيز زيادہ بہتر معلوم ہو وہ كريں.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم يتيم كے مال كے قريب نہ جاؤ مگر بہتر طريقہ سے .
اور ہاؤس بلڈنگ كے قرض كے بارہ ميں عرض ہے كہ آپ كو علم ہے كہ وہ قسطوں ميں ادا كرنا ہے، لہذا آپ اس كى قسطيں ادا كرتے رہيں، اور ميت اس سے برى ہے، ليكن وہ قسطيں جو اس كى موت سے قبل آئيں اور اس نے انہيں ادا نہيں كيا، ليكن وہ اقساط جو اس كى موت كے بعد والى ہيں ان سے ميت برى ہے، كيونكہ وہ جائداد سے تعلق ركھتى ہيں، اور جائداد ورثاء ميں منتقل ہو چكى ہے، لہذا يہ قسطيں بھى انہيں سے وصل كى جائيں گى، نہ كہ زكاۃ سے ادا ہونگى، كيونكہ ان كے پاس اتنا مال ہے جس سے يہ قسط ادا كى جا سكے.
ماخذ:
لقاء الباب مفتوح لابن عثيمين ( 55 / 126 )