ميں ايك يورپى ملك ميں رہائش پذير ہوں جو مشرقى يورپ ميں واقع ہے، ميرى اپنى يوكرائنى بيوى كے ساتھ بچہ كى پرورش كے متعلق پرابلم چل رہى ہے جسے ميں طلاق دے چكا ہوں، اور طلاق كے بعد ميں نے اس سے بچے كا بھى مطالبہ نہيں كيا، اور اس كے اخراجات بھى ادا كرنے لگا تھا.
ليكن كچھ ايام قبل مجھے علم ہوا كہ وہ بچے كو غير مسلم نانى كے پاس چھوڑ كر خود دبى چلى گئى ہے، اب غير مسلم نانى مجھے اپنے بچے سے بھى نہيں ملنے ديتى، يہاں مجھے علم ہوا كہ مجھے بچوں كى ديكھ بھال كرنے والى تنظيم سے رجوع كرنا ہوگا تا كہ بيوى كى غير مسلم ماں سے بچہ حاصل كرنے كا مطالبہ كرنے كے ليے ورقہ حاصل كر سكوں، اس ليے ميں نے بالفعل تنظيم ميں شكايت درج كرا دى، يہ تنظيم فيصلہ كرنے كى طاقت تو نہيں ركھتى ليكن تنازع حل كرانے كے ايك ثالث كا كردار ضرور ادا كرتى ہے.
اور اگر اتفاق نہ ہو سكے تو پھر قانونى چارہ جوئى كے ليے مشورہ ديتى ہے، اس مشورہ كى اساس پر عدالت يا پوليس ميں شكايت درج كرائى جا سكتى ہے، اسى طرح ميں نے اس كميٹى سے يہ مطالبہ بھى كيا كہ اگر بچے كى ماں كہيں اور چلى جاتى ہے تو پھر بچہ نانى كى بجائے پرورش كے ليے مجھے ديا جائے.
اور ميں نے يہ مطالبہ بھى كيا كہ مستقل طور پر مجھے اپنے بيٹے كو ديكھنے كى اجازت دى جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ مجھے كچھ وقت كے ليے بيٹے كو اپنے ساتھ بھى لے جانے ديا جائے، يہاں ميں نے يہ مطالبہ كر كے شريعت كى كوئى مخالفت نہيں كى ( واللہ اعلم ) اہم يہ كہ دو ہفتے قبل ميرے مطلقہ بيوى نے دبى سے ميرے ساتھ سودے بازى كرنے لگى كہ ميں اپنى شكايت واپس لے كر شريعت كے مطابق فيصلہ كراؤں اور وہ وہاں علماء ميں سے كسى ايك عالم دين كو مقرر ديتى ہے اس سے فيصلہ كرا ليا جائے، ليكن ميں نے شكايت واپس لينے سے انكار اس ليے كر ديا كہ شكايت واپس لينے كا معنى يہ ہے كہ وہ خود اس كے برعكس دعوى كر سكتى ہے كہ ميں نے اپنا بيٹا چھوڑ ديا ہے.
اس ليے ميں نے رابطہ كرنے والے شخص كو كہا كہ اگر وہ واقعى اس ميں سچى ہے كہ شريعت كے مطابق فيصلہ كرانا چاہتى ہے تو پھر كوئى شرط لگانے سے قبل اپنى ماں سے رابطہ كر كے مجھے بيٹا واپس دلائے، اگر وہ شريعت كے مطابق فيصلہ كرانا چاہتى ہے تو شريعت كا فيصلہ لكھ كر بعد ميں ہمارے درميان دو اتفاق ہو اس كے مطابق ہم تنظيم سے شكايت واپس لے ليں گے، اس طرح ہمارے درميان شرعى فيصلہ ہو جائيگا، اور تنظيم ہميں اپنے درميان اتفاق پر عمل كرنے پر مجبور كرے گى، جو كہ بالحقيقت شرعى حكم ہے، وگرنہ شرعى فيصلہ ہوگا اور وہ اس شرعى حكم سے كوئى فائدہ نہيں حاصل كر سكےگى، تو يہ نافذ نہيں ہوگا اور نہ ہى اسے يہ فيصلہ نافذ كرنے پر كوئى مجبور كر سكےگا، بہرحال وہ دو روز قبل دبى سے واپس آئى مسئلہ يہ ہے كہ ميں نے شريعت كا فيصلہ كرانے سے انكار كيا ہے كيونكہ اس تنظيم سے اپنى شكايت واپس نہيں لى، ليكن اس كے باوجود ميں شريعت كے مطابق فيصلہ كرانا چاہتا ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ:
آيا ميرا اس تنظيم ميں شكايت درج كرانا غير شرعى عمل ہے ؟
اور كيا اگر وہ شريعت كے مطابق فيصلہ كرانے سے بالكل انكار كر دے تو كيا ميں اپنے مسلمان بچے كے بارہ ميں ملكى قانون كے مطابق فيصلہ كرا سكتا ہوں كہ اسے غير مسلم كے ہاتھوں ميں نہ ديا جائے، اس وقت بچہ ماں باپ كے بغير دو ماہ غير مسلم نانى كے پاس ہے كيا ميں اپنے بچے كے بارہ ميں بے خوف ہو جاؤں ؟
كيا يورپى ممالك ميں بچوں كى ديكھ بھال كى تنظيموں يا پھر عدالت سے رجوع كرنا طاغوت سے فيصلہ كرانا كہلاتا ہے ؟
سوال: 182136
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اصل تو يہى ہے كہ مسلمان شخص كو اپنے كسى بھى تنازع ميں شريعت كے علاوہ كہيں اور سے فيصلہ نہيں كرانا چاہيے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر تم كسى چيز ميں تنازع كر بيٹھو تو اسے اللہ اور اس كے رسول پر پيش كرو اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے اور اچھے انجام والا ہے النساء ( 59 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اللہ سبحانہ و تعالى نے ہميں آپس كے سارے تنازعات كو اپنى اور اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانے كا حكم ديا ہے، اس ليے كبھى ہمارے ليے مباح نہيں كہ ہم تنازع كو رائے يا قياس يا كسى امام كى رحمت اور خواب اور كشف و الہام اور دل كى بات اور استحسان و عقل اور نہ ہى كسى دنياوى قانون اور كسى بادشاہ كى سياست اور لوگوں كى عادت جو مسلمانوں كى شريعت كے مطابق نہيں پيش نہيں كر سكتے، كيونكہ يہ سب سے زيادہ نقصاندہ ہے اس سے زائد كو قابل ضرر چيز نہيں ہے، اور يہ سب طاغوت ہيں، اس ليے جس نے ان كى طرف اپنا فيصلہ كرانا چاہا يا اسے اپنے تنازع ميں حكم و فيصل مانا تو اس نے طاغوت سے فيصلہ كروايا ” انتہى
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 244 ).
ان دنياوى عدالتوں وغيرہ طاغوت سے فيصلہ كرانے كا گناہ صرف اسى صورت ميں ہوگا جب اللہ كى شريعت كے مطابق فيصلہ كرانے سے انكار و اعراض كيا جائے، اور اسے چھوڑ كر كسى دوسرے سے فيصلہ كرايا جائے.
ليكن اگر كسى كے ملك ميں شريعت كا نفاذ نہيں اور شرعى عدالت نہيں تو اسے اپنا حق حاصل كرنے كے ليے ان دنياوى عدالتوں ميں جانا پڑتا ہے يا اپنے اوپر ظلم روكنے كے ليے ان عدالتوں ميں جانا پڑتا ہے تو پھر ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ بھى تين شروط كے ساتھ جائز ہوگا:
پہلى شرط:
اس كے علاوہ كسى اور جائز طريقہ سے حق حاصل نہ كيا جا سكتا ہو.
دوسرى شرط:
وہ اپنے حق سے زائد وصول مت كرے، چاہے قانون بھى اس كا فيصلہ كر دے تب بھى زيادہ نہ لے.
تيسرى شرط:
وہ اس عدالت سے فيصلہ كرانا ناپسند كرتا ہو، اور مجبورا اس سے فيصلہ كرائے.
ہم يہ شروط اور اس سلسلہ ميں علماء كرام كے فتاوى جات سوال نمبر ( 29650 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
ابتدائى طور پر آپ كے ليے كوئى حرج نہيں كہ آپ ايك غير مسلم عورت كے ہاتھ پرورش پانے والے اپنے بيٹے كا حق پرورش خود حاصل كريں، چاہے يہ معاملہ بڑھ جائے كہ يہ حق پوليس كے ذريعہ يا پھر اس ملك كے قانون كے مطابق فيصلہ كرا كر ليا جائے جہاں شرعى عدالتيں نہيں ہيں.
آپ كا اس تنظيم سے شكايت واپس لينے سے انكار كرنا ان شاء اللہ شرعيت كے مطابق فيصلہ كرانے سے انكار شمار نہيں ہوتا ـ كيونكہ ہو سكتا ہے واقعى يہ آپ كى مطلقہ بيوى كى چال ہو تا كہ آپ اپنے بيٹے كا حق پرورش ہى كھو بيٹھيں.
اس ليے ہمارے خيال كے مطابق تو آپ كا يہ فعل شريعت الہى كا انكار نہيں، خاص كر جب وہاں كوئى ايسى عدالت يا ايسا شخص نہيں جو آپ كى بيوى كو شرعى حكم كى پابند بنا سكے؛ كيونكہ يہ بات تو معلوم اور طے شدہ ہے كہ فيصلہ پر عمل درآمد تو عدالت ہى كرا سكتى ہے، نہ كہ وہ تنظيم اور فيصلہ كرنے والا جو فيصلہ پر عمل درآمد نہ كرانے كى مالك ہى نہ ہو، اور جو فيصلہ كرے اسے ترك كرنا آسان ہو.
دوم:
آپكى مطلقہ بيوى كا اپنے ملك واپس آنے كے بعد آپ كے بچے كى پرورش كے مسئلہ ميں ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ جبكہ ماں واپس آچكى ہے تو پرورش كا حق اسے حاصل ہوگا، ليكن اگر وہ پھر دبى يا كہيں اور جا كررہنا چاہے تو حق پرورش ساقط ہو كر آپ كو مل جائيگا.
سوال نمبر (8189 ) كے جواب ميں ہم سفر كے نتيجہ ميں حق پرورش منتقل ہو جائيگا آپ اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے اس كا مطالعہ كريں.
اور سوال نمبر (98965 ) كے بيان ہوا ہے كہ حق پرورش والدين ميں سے اسے حاصل ہوگا جو دونوں ميں دينى طور پر بہتر اوراچھا ہوگا، اور جو بچے كو اچھى اور بہتر سہوليات اور بدنى و دينى ديكھ بھال اچھى كريگا، جو خود گناہ و معاصى كا شكار ہو وہ بچے كى دينى تربيت ميں بھى كوتاہى كريگا، اسے بچے كى پرورش كا حق نہيں ديا جائيگا چاہے وہ باپ ہو يا ماں.
ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اپنے بچے كى پرورش كا حق حاصل كرنے كى كوشش كريں، كيونكہ ماں سفر پر جائيگى اور بچہ غير مسلم نانى كے پاس رہےگا، اس ليے آپ كو اپنا بيٹا اس طرح كى حالت ميں نہيں چھوڑنا چاہيے، چاہے آپ كى اس پر صلح بھى ہو جائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات