0 / 0
9,10921/08/2013

قسطوں ميں فروخت كرنا

سوال: 1847

قسطوں ميں خريدوفروخت كا حكم كيا ہے؟ اور جب كوئى خريدار قسطوں كى ادائيگى ميں تاخير كرے تو اس سے شرعا كس طرح نپٹا جائے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ادھار ميں موجودہ قيمت سے زيادہ لينا جائز ہے، اور اسى طرح نقدوں اور ايك معلوم مدت تك كى قسطوں ميں خريدارى كى قيمت بتانا بھى جائز ہے، اور بيع اس وقت تك صحيح نہيں ہو گى جب تك خريدار اور فروخت كرنے والا دونوں نقد يا ادھار پر اتفاق نہ كر ليں، لھذا اگر بيع نقد يا ادھار ميں تردد كے ساتھ ہوئى ہو وہ اسطرح كہ كسى ايك قيمت پر يقينى اتفاق نہ ہوا ہو تو يہ بيع شرعا جائز نہيں ہو گى.

دوم:

معاہدے كے اندر ادھار كى بيع ميں موجودہ قيمت سے عليحدہ قسطوں پر فوائد شامل كرنا شرعا جائز نہيں ، وہ اسطرح كہ مدت كے ساتھ مرتبط ہو چاہے خريدار اور تاجر فائدے كى نسبت پر اتقاق كريں يا اسے عام چلنے والے فائدہ سے مربوط كرديں.

سوم:

جب خريدار مدت مقررہ پر اقساط كى ادائيگى ميں تاخير كرے تو اس پر اسے لازم كرنا جائز نہيں، يعنى كسى سابقہ شرط يا بغير كسى شرط كے ہى قرض كى رقم زيادہ كرنا جائز نہيں كيونكہ يہ سود اور حرام ہے.

چہارم:

قرض لينے والے ( يعنى اقساط پر خريدارى كرنے والے ) كے ليے اقساط كى ادائيگى ميں ٹال مٹول سے كام لينا حرام ہے، ليكن اس كے باوجود اقساط كى تاخير كى بنا پر تاخير كے عوض ميں پيسے زيادہ كرنا شرعى طور پر جائز نہيں.

پنجم:

بائع كے ليے شرعا جائز ہے كہ وہ معاہدے كے وقت مدت كى شرط ركھےكہ: خريدار نے اگر كچھ اقساط ميں تاخير كردى تو وقت سے قبل ہى اقساط ختم كردى جائيں گى ، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر خريدار اس پر رضامندى كا اظہار كرے تو پھر معاہدے ميں يہ شرط ركھى جاسكتى ہے.

ششم:

بائع كو كوئى حق نہيں كہ وہ فروخت كردہ چيز كى ملكيت اپنے پاس ركھے، ليكن يہ جائز ہے كہ وہ خريدار كے ساتھ يہ شرط ركھے كہ بطور ضمانت فروخت كردہ چيز اس كے پاس رہن ركھے تا كہ مقرر كردہ اقساط پورى ہوسكيں.

ديكھيں: مجمع الفقہ الاسلامى صحفہ نمبر ( 109 )

ہفتم:

مدت پر حاصل كردہ قرض كى وقت سے قبل ادائيگى كى بنا پر قرض ميں سے كچھ كمى كرنا شرعا جائز ہے، چاہے يہ كمى قرض لينے والے كے مطالبہ پر ہو يا قرض دينے والے كى طرف سے، جب كسى سابقہ اتفاق كى بنا پر ايسا نہ ہو تو يہ حرام كردہ سود ميں شامل نہيں ہو گا اورجب تك قرض خواہ اور مقروض دونوں كے مابين ہى يہ معاملہ اور تعلق رہے، ليكن جب اس ميں كوئي تيسرا فريق شامل ہو گيا تو پھر جائز نہيں، كيونكہ اس وقت تجارتى اوراق كى كمى كے حكم ميں آ جائے گا.

ہشتم:

جب اقساط ادا كرنے والا تنگ دست نہ ہو اور مستحق اقساط ميں سے كوئى قسط ادا نہ كرسكنے كى حالت ميں خريدار اور تاجر كا مكمل اقساط ختم كرنے پر اتفاق كرنا جائز ہے.

نہم:

مقروض كى موت يا اس كے مفلس ہو جانے يا پھر ادائيگى ميں ٹال مٹول كرنے كى حالت ميں رضامندى كے ساتھ قرض وقت سے پہلے ادا كرنے كى صورت ميں قرض ميں كمى كرنا جائز ہے.

دہم:

تنگ دستى كا ضابطہ جس كى بنا پر اسے ڈھيل اور مہلت دينا واجب اور ضرورى ہے يہ ہے كہ: مقروض كے پاس اس كى ضروريات سے زيادہ مال نہ ہو جو اس كے قرض كى ادائيگى كر سكےيا پھر كوئي ايسى بعينہ چيز نہ پائى جائے جو اس كى ادائيگى كرسكتى ہو.

ماخذ

ديكھيں: مجمع الفقہ الاسلامى صفحہ نمبر ( 142 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android