سوال: قرب الموت سے لیکر مرنے کے بعد تک کی وہ کون سی علامات ہیں جو میت کے نیک یا برے ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؟
موت کے وقت ایسی علامات جو انسان کے اچھے یا برے ہونے پر دلالت کرتی ہیں
سوال: 184737
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پہلے سوال نمبر( 10903) کے جواب میں حسن خاتمہ کی علامات کا بیان گزر چکا ہے ،یہ علامات انسان کے نیک اور اللہ کے قریب ہونے کی نشانی ہیں ۔
لیکن موت کے بعد ایسی کوئی قوی علامت موجود نہیں ہے جس سے بندے کے صالح اور متقی ہونے کی دلیل لی جائے ،ہاں البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں ، یہ بات واضح رہے کہ اس وقت ہے جب اس شخص کو زندگی میں لوگوں کے درمیان اچھے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہو، تاہم اس بارے میں کوئی یقینی اور ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی۔
چنانچہ اگر مرنے والا بندہ اپنی زندگی میں نیکی و تقوی میں مشہور تھا، پھر اسکی موت کے بعد اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک اٹھا تو یہ ایسی علامت ہے جس سے اچھا تاثر لیا جاسکتا ہے اور اس پر خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مرنے کے بعد لوگ اس کی تعریف کریں، اور اس کے لئے دعائیں کریں تو یہ اس کے نیک ہونے کی نشانی ہے، اسی طرح زندگی میں اچھے لوگوں کی صحبت بھی انسان کے نیک ہونے کی نشانی ہے ۔
حسن خاتمہ کے بہت سے اسباب ہیں ؛جن میں: اللہ کی اطاعت پر استقامت، اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن ،سچائی ،پرہیز گاری ،توبہ ،موت کثرت سے یاد کرنا اور دنیاوی چاہتیں مختصر کرنا، آخرت کی فکر اور نیکوکار لوگوں کی صحبت، قابل ذکر ہیں۔
بری حالت اور برے انجام کی نشانی بننے والی علامات میں سے چند ایک یہ ہیں:
-بندہ اپنی موت کے وقت اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہو ، صحیح مسلم (2877)میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: “میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین دن قبل آپکو یہ فرماتے ہوئے سنا :(تم میں سے ہر ایک کا خاتمہ اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن کی ہی حالت میں ہونا چاہیے)
-اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے فوت ہو، جیسے نماز نہ پڑھنا، شراب نوشی، اور زنا کرنا؛ امام بخاری رحمہ اللہ حدیث نمبر (6607) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بے شک اعمال کا انجام خاتمے کے مطابق ہوتا ہے )
-بندے کو توبہ کی توفیق ہی نہ ملے، اور وہ اپنی سخت گمراہی و ضلالت میں بڑھتا ہی چلا جائے کسی برائی سے باز نہ آئے یہاں تک کہ اسی حالت میں مر جائے۔
-دنیا میں برے اعمال کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر پھٹکار،ترش روی اور سیاہی جیسی علامات وغیرہ برے انجام کی نشانیاں ظاہر ہو جائیں ،یا کلمہ طیبہ کے پڑھنے سے انکار کر دے اور ایسی بری اور غلط باتیں وغیرہ منہ سے نکالنے لگے جو دنیا میں اس کے معمولات میں شامل تھیں ۔
-اپنی آخری عمر میں بیماری اور طاقت و استطاعت کے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر فرائض اور واجبات میں سستی کرے ؛اور اپنی سستی اور برے کردار کی وجہ سے اللہ کے فرائض کو ضائع کرنا شروع کر دے ۔
-قریب المرگ شخص موت کو ناپسند کرنے کے ساتھ ساتھ خوف ،بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو نیز نیکی پر قائم نہ رہے اور برے اعمال کرنے لگے۔
بخاری نے حدیث نمبر(6507)میں اور مسلم نے (2683)میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات پسند کرتا ہے ،اللہ اس سے ملاقات پسند کرتا ہے،اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہ کرے اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے)
اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے سوال کیا: “ہم تو سبھی موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟” آپ نے جواب میں فرمایا: (اس کا یہ مفہوم نہیں ہے، اس مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کی رضامندی اور اس کے فضل و کرم کی بشارت دی جاتی ہے تو اس بشارت کے سامنے اس کے ہاں ہر چیز ہیچ ہو جاتی ہے، چنانچہ وہ اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اللہ اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے ، اس کے بر عکس کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کو ملنے والی سزاؤں کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز وہ[سزا] ہوتی ہے جس کا وہ سامنا کرنے والا ہوتا ہے؛ اسی لئے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے )
-لوگ اس کی موت کے بعد اس کی کثرت سے برائیاں بیان کریں ،چنانچہ بخاری (1367) اور مسلم (949) میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: (اس کے لیے واجب ہو گئی )، پھر ایک اور جنازہ گزر ا تو لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں ،اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کے لئے واجب ہو گئی )،تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: “کیا واجب ہو گئی”؟ آپ نے فرمایا: ( جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کو تم نے برے لفظوں سے یاد کیا اس کے لئے آگ واجب ہو گئی، تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو)
برے انجام کے چند اسباب:
غلط عقائد، گناہوں پر مصر رہنا، کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ،دنیا کی طرف متوجہ ہونا اور اسی سے دل لگا کر رکھنا ، اس کے برعکس آخرت اور اس کیلئے تیاری سے بے رغبتی ، دین پر استقامت اور دیندار لوگوں سے رو گردانی ،برے لوگوں کی صحبت اور ان سے دوستی قابل ذکر اسباب ہیں ۔
حافظ عبد الحق اشبیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تجھ پر رحم کرے !اس بات کو اچھی طرح جان لے کہ برے خاتمہ -اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے – کے کئی اسباب ،راستے اور دروازے ہیں ،ان میں سب سے بڑا سبب دنیا میں مگن ہو کر ، آخرت سے رو گردانی اور رب کی معصیت کا رسیا ہونا ہے ۔
کبھی انسان پر کسی قسم کی غلطی یا نافرمانی ،یا دین سے بے رغبتی اور تہمت وغیرہ جیسے گناہ حاوی ہو جاتے ہیں اور ان کا دل پر تسلّط مضبوط ہو جاتا ہے،اور انسان کی عقل کو اپنا غلام بنا کر اس کے نور کو بجھا دیتا ہے اور عقل پر پردے ڈال دیتا ہے،تو ایسی صورت میں کوئی وعظ و نصیحت فائدہ نہیں دیتی اور نہ کوئی بھلی بات سود مند ثابت ہوتی ہے ؛ بلکہ بسا اوقات اسی حالت میں ہی اسے موت آ دبوچتی ہے ۔۔۔
یاد رکھیں: بے شک برا انجام -اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے- اس کا نہیں ہوتا جس کا ظاہر بالکل درست اور باطن پاک صاف ہو، یہ انجام تو اسی کا ہوتا ہے جس کی عقل میں فتور ہو اور کبیرہ گناہوں کا رسیا ہو، معصیت کے کاموں کی طرف گامزن رہے،بسا اوقات یہی حالت اس پر غالب رہتی ہے حتی کہ توبہ سے پہلے ہی اسے موت آ دبوچتی ہے اور اسے توبہ کا موقع دیے بغیر ہی حملہ آور ہو جاتی ہے چنانچہ ضمیر کی اصلاح سے قبل ہی اس کا قصہ تمام کر دیتی ہے اس طرح شیطان اس ناگہانی آفت کے وقت اس کا قلع قمع کر کے رکھ دیتا ہے اور اسے اس حیرانی و پریشانی کی حالت میں اچک لیتا ہے “
“العاقبۃ وذکرالموت “(ص/178)
مزید استفادہ کے لئے سوال نمبر(114666)کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات