ہمارى مسجد ميں كوئى مستقل اور تنخواہ دار امام نہيں، چنانچہ ہم لوگوں ميں سے كس شخص كو امامت كے آگے كريں ؟
امامت كا سب سے زيادہ حقدار شخص
سوال: 1875
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بہت سى صحيح احاديث آئى ہيں جن ميں بيان ہوا ہے كہ امامت كا سب سے زيادہ حقدار كون شخص ہے، اور كون شخص امامت كے ليے افضل ہے ذيل ميں ہم چند ايك احاديث درج كرتے ہيں:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر تين شخص ہوں تو ان ميں سے ايك شخص ان كى امامت كروائے اور ان ميں امامت كا زيادہ حقدار وہ ہے جو قرآن مجيد زيادہ پڑھا ہوا ہو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1077 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اس طرح ہے:
" قوم كى امامت وہ كرائے جو ان ميں سے كتاب اللہ كا زيادہ قارى ہو اور قرآت ميں قديم ہو، اور وہ قرآت ميں برابر ہوں تو پھر ان كى امامت وہ كرائے جس نے پہلے ہجرت كى ہو، اور اگر وہ ہجرت ميں برابر ہوں تو پھر ان ميں سے زيادہ عمر والا شخص امامت كروائے… "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا زيادہ حقدار وہ شخص ہے جو كتاب اللہ كا زيادہ قارى ہو اور نماز كے مسائل كو سمجھنے والا ہو.
صحابہ كرام كےدور ميں اسے امامت كے ليے آگے كيا جاتا تھا جو زيادہ قارى ہوتا، كيونكہ وہ آيات كى صحيح قرآت سيكھتے، اور ان آيات ميں جو علم اور عمل ہوتا اس كى تعليم حاصل كرتے تھے، چنانچہ انہوں نے علم اور عمل دونوں كو جمع كيا، صرف قرآن مجيد كے حفظ پر ہى اكتفاء نہيں كيا جيسا كہ آج ہمارے دور ميں حافظ قرآن كى حالت ہے، يا ان ميں سے بعض متقن تلاوت اشخاص كى حالت، آواز تو بہت اچھى نكالتے ہيں ليكن انہيں نماز كے مسائل كا كچھ علم ہى نہيں ہوتا.
اگر وہ سب قرآت ميں برابر ہوں تو پھر سنت نبويہ كو سب سے زيادہ جاننے والا امامت كروائے، اور اگر اس ميں بھى سب برابر ہوں تو وہ امامت كروائے جس نے پہلے ہجرت كى ہو، اور اگر اس ميں بھى برابر ہوں، يا پھر ہجرت ہو ہى نہ تو سب سے زيادہ عمر والا شخص امامت كروائے، جيسا كہ مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ميں ہے:
مالك بن حويرث رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم سب نوجوان تقريبا ايك ہى عمر كے تھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور وہاں بيس راتيں بسر كيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہت نرم اور رفيق تھے جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سمجھا كہ ہميں اپنے بيوى بچوں كا شوق پيدا ہو چكا ہے يا ہم اشتياق ركھتے ہيں تو ہميں پوچھنے لگے كہ پيچھے كسے چھوڑ كر آئے ہو، تو ہم نے انہيں بتايا.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اپنے اہل و عيال ميں واپس جاؤ اور ان ميں جاكر رہو اور انہيں تعليم دو اور انہيں حكم دو، اور كچھ اشياء كا ذكر كيا جو مجھے ياد ہيں، يا مجھے ياد نہيں، اور نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے، اور جب نماز كا وقت ہو جائے تو تم سے ايك شخص اذان كہے اور تم ميں سے بڑى عمر والا تمہارى امامت كروائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6705 ).
چنانچہ جب وہ قرآت اور علم اور ہجرت ميں برابر ہوں تو انہيں حكم ديا كہ ان ميں سے بڑى عمر كا شخص امامت كروائے، اور اگر اس ميں بھى سب برابر ہوں تو پھر سب سے زيادہ متقى اور پرہيزگار شخص امامت كروائے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا تم ميں سے اللہ تعالى كے ہاں سب سے زيادہ عزيز شخص وہ ہے جو تم ميں سب سے زيادہ متقى ہو الحجرات.
اور اگر وہ ان سب اشياء ميں برابر ہوں اور اتفاق نہ كر سكيں تو پھر آپس ميں قرعہ اندازى كريں.
كفار كے ممالك ميں رہنے والوں ميں سے نہ تو پى ايچ ڈى كى ڈگرى ركھنے والوں كو آگے كيا جائيگا اور نہ ہى وہاں زيادہ دير سے بسنے والے كو بلكہ قرآن مجيد كے زيادہ حافظ اور نماز كے مسائل كو زيادہ سمجھنے والا شخص امامت كے ليے آگے كيا جائيگا، اور نہ ہى مسلمانوں كے يہ جائز ہے كہ وہ اپنى شخصى خواہشات كى خاطر امامت ميں تنازع كرتے پھريں، بلكہ انہيں اس شخص كو امامت كے ليے آگے كرنا چاہيے جسے شريعت نے آگے كيا ہے.
اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ وہ مسلمانوں كے حالات درست فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد