سوال: کل میری نانی کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں علاج کیلئے 2000 ڈالر کی اشد ضرورت ہے، تو کیا میں اپنی زکاۃ سے ان کے علاج معالجہ کے اخراجات برداشت ادا کرسکتا ہوں؟ یہ واضح رہے کہ ان کے دو بیٹے ہیں جن کی محدود سی آمدن ہے، اور وہ اپنی اس آمدن سے اتنی بچت بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ 2000 ڈالر بہت بڑی رقم ہے، اور اگر بچت کرنا بھی چاہیں تو انہیں سودی قرض کا سہارا لینا پڑے گا، چنانچہ میں نے سوچا کہ انہیں یہ رقم اپنی زکاۃ کی مد سے دے دوں، اس بارے میں شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ اور اگر انہیں زکاۃ کی رقم دینا جائز ہے تو کیا انہیں یہ بتلانا ضروری ہے کہ یہ زکاۃ ہے؟
کیا اپنی نانی کا علاج اپنی زکاۃ سے کروا سکتا ہے کیونکہ اس کے ماموں علاج کی استطاعت نہیں رکھتے
سوال: 189069
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اصل قاعدہ یہ ہے کہ آباؤ اجداد اور اپنی نسل کو زکاۃ نہیں دی جا سکتی، چنانچہ واجب یہی ہے کہ ان کے اخراجات خود برداشت کیے جائیں تا کہ انہیں لوگوں سے مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
خطیب شربینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابن منذر کہتے ہیں: ایسے والدین جن کے اخراجات پورے کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ، ان کے اخراجات اولاد کے ذمہ ہونگے، نیز دادا ، دادی اور نانا ، نانی بھی والدین کے حکم میں اسی طرح شامل ہونگے جیسے آزادی، ملکیت، عدم قصاص، اور گواہی قبول نہ کیے جانے کے سلسلے میں شامل ہیں” انتہی
” مغنی المحتاج ” (5/184)
آباؤ اجداد اور اپنی نسل [پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں]کا خرچہ واجب ہونے کیلئے دو شرطیں ہیں:
1-مذکورہ رشتےدار غریب ہوں، اورکمانے کی استطاعت بھی نہ رکھتے ہوں۔
2-ان پر کیا جانے والا خرچہ ذاتی ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے بعد بچنے کی صورت میں کیا جائے۔
اور صحیح موقف کے مطابق مذکورہ رشتہ داروں کا خرچہ انسان پر لازم ہونے کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اس شخص کا وارث بھی بن سکتا ہو۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آباؤ اجداد اور نانا ، نانی کتنے ہی دور کے ہوں سب کا خرچہ لازمی ہے، اسی طرح پوتا پوتی، نواسہ نواسی کتنے ہی دور کے ہوں ان کا خرچہ بھی لازمی ہے، اسی موقف کے امام شافعی، ثوری، اور اصحاب الرائے قائل ہیں۔۔۔”
اس کے بعد امام ابن قدامہ نے غیر وارث رشتہ داروں کی حالتیں بھی ذکر کیں، ان میں سے ہمیں یہاں پر جومطلوب ہیں وہ درج ذیل ہیں:
“اگر کوئی دور کا رشتہ دار کسی قریبی رشتہ دار کے باعث وراثت سے محروم رہتا ہو، اور یہ قریبی رشتہ دار صاحب حیثیت بھی ہو تو خرچہ اسی کے ذمہ ہوگا، دور والے رشتہ دار پر کچھ نہیں ہوگا؛ کیونکہ اگر قریب والے کو وراثت میں ترجیح مل رہی ہے تو خرچہ کرنے میں بھی اسی کو ترجیح دی جائے گی، اور اگر قریبی رشتہ دار تنگ دست ہے تو آباؤ و اجداد یا نسل میں سے کوئی بھی موجود ہو تو خرچہ انہی کے ذمہ ہوگا” انتہی
” المغنی” (8/170)
اسی طرح “زاد المستقنع “میں ہے کہ:
“تجب ، أو تتمتها لأبويه وإن علوا، ولولده وإن سفل.. حجبه معسر أو لا”
اس کی شرح میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یعنی خرچہ واجب ہونے کیلئے وارث بننا شرط نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص کسی تنگ دست قریبی رشتہ دار کی وجہ سے وارث بننے سے محروم بھی ہوتا ہو، لیکن ہو صاحب حیثیت تو اس پر خرچہ کرنا واجب ہوگا۔
اس کی مثال یہ ہے کہ: ایک آدمی کا والد غریب ہے، اور دادا بھی غریب ہے، چنانچہ اس صورت میں یہ آدمی اپنے باپ کا خرچہ برداشت کریگا، کیونکہ یہ اس کا بیٹا بھی ہے اور وارث بھی ہے، اسی طرح دادا پر بھی خرچ کریگا کیونکہ دادا اس صورت میں وارث نہیں بن سکتا۔
اس عبارت کو سمجھنے کیلئے دوسری مثال یہ ہے کہ: ایک آدمی کا باپ غلام ہے، لیکن دادا آزاد ہے، تو اس صورت میں باپ اپنے بیٹے کو دادے کا وارث بننے سے محروم نہیں کر سکتا، بلکہ بیٹا وارث بنے گا؛ کیونکہ باب غلام ہونے کی وجہ سے وارث نہیں بن سکتا، اور جو خود کسی عارضی وصف کی وجہ سے وارث نہ بن سکے تو وہ دوسروں کو وارث بننے سے نہیں روک سکتا، چنانچہ اس صورت میں پوتا اپنے دادے کے اخراجات برداشت کریگا۔
بالکل اسی طرح اگر لڑکے کا والد سرے سے موجود نہ ہو، صرف دادا موجود ہو تو ایسی صورت میں پوتا دادے کا وارث بنے گا؛ کیونکہ اسے دادے کی وراثت سے محروم کرنے والا کوئی نہیں ہے” انتہی
” الشرح الممتع” (13/500)
مذکورہ بالا تفصیل کے بعد :
یہ واضح ہے کہ آپ اپنے مال کی زکاۃ اپنی غریب دادی کو نہیں دے سکتے، بلکہ اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو اپنے ذاتی خرچ کیساتھ ان کا علاج معالجہ کروائیں۔
اور اگر آپ کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے یا آپ کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں تو پھر آپ اپنی زکاۃ سے ان کا علاج کروا سکتے ہیں؛ کیونکہ ایسی حالت میں آپ پر ان کے اخراجات واجب نہیں ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آباؤ اجداد کتنے ہی دور کے ہوں اور اسی طرح نسل کتنی ہی دور کی ہو ہر دو صورت میں انہیں زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، بشرطیکہ وہ غریب ہوں اور اس کے پاس ان کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہ ہو، کیونکہ یہاں پر ضرورت ہے اور اس ضرورت کے مقابلے میں کوئی قوی معارض بھی نہیں ہے، نیز یہی موقف امام احمد سے منقول دو روایات میں سے ایک ہے” انتہی
“الاختيارات الفقهية” از: بعلی رحمہ اللہ (104)
مزید کیلئے سوال نمبر: (111892) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات