سوال: کیا امام کے غلط انداز میں تلاوت قرآن کی وجہ سے نماز با جماعت ترک کرنا جائز ہے؟ خصوصاً سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے واضح غلطی کرتا ہے، اگر اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے! تو کیا ہم فتنے سے بچنے کیلئے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد اکیلے نماز دہرا لیں؟ اور کیا ہم یہی کام سری نمازوں میں بھی کریں؟
امام سورہ فاتحہ صحیح انداز سے نہیں پڑھ سکتا، تو کیا فتنے سے بچنے کیلئے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد نماز دہرا لیں؟
سوال: 194317
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نماز با جماعت مسجد میں ادا کرنا فرض عین ہے، چنانچہ نماز با جماعت کسی عذر کی بنا پر ہی چھوڑی جا سکتی ہے۔
مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنا واجب ہے، اس کے بارے میں دلائل جاننے کیلئے آپ سوال نمبر: (8918) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
جو شخص فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسی غلطی کرتا ہے کہ جس سے معنی تبدیل ہو جاتا ہو، مثلاً: “إِيَّاكَ نَعْبُدُ ” میں “ک” پر زیر پڑھے، یا ایک حرف کو کسی دوسرے حرف سے بدل دے تو ایسی صورت میں اس شخص کی اقتدا وہی کر سکتا ہے جو اسی امام جیسی تلاوت کرتا ہو، [یعنی اگر امام سے اچھی تلاوت کرنا جانتا ہے تو وہ اس کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھ سکتا]
اور اگر ایسی غلطی ہوتی ہے جس سے معنی تبدیل نہیں ہوتا، مثلاً: “اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن ” پڑھتے ہوئے : لفظ ” رَبِّ ” کی “ب” پر زبر یا پیش پڑھے تو ایسے شخص کی اقتدا میں نماز ادا کرنا درست ہے، تاہم جو شخص صحیح انداز سے تلاوت کرے اور غلطیاں نہ ہوں تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا افضل اور بہتر ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (27049) اور (70270) کے جواب کا مطالعہ کریں۔
سوم:
ایسے امام کو غلطیوں کی نشاندہی کے بعد صحیح تلاوت کی تعلیم دینی چاہیے؛ کیونکہ سورہ فاتحہ پڑھنا نماز کا ایک رکن ہے۔
چنانچہ اگر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لے، اور صحیح انداز سے تلاوت کرنے لگے ، تو الحمد للہ، وگرنہ ذمہ داران سے گفتگو کر کے صحیح تلاوت کرنے والے کسی دوسرے امام کو متعین کرنا واجب ہوگا۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے متعلق پوچھا گیا جو صحیح انداز سے تلاوت نہیں کرتا، تو کیا اس کے پیچھے نماز ادا کرنا افضل ہے یا اکیلے نماز پڑھنا افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
“آپ جب نماز پڑھیں تو کوشش کریں کہ کسی ایسے امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں جو صحیح انداز سے تلاوت کرتا ہے، چنانچہ اگر آپ کو کسی امام کے بارے میں یہ علم ہو کہ وہ صحیح انداز سے تلاوت نہیں کرتا، یعنی سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے معنی تبدیل کرنے والی غلطی کرتا ہے، مثلاً: “إِيَّاكَ نَعْبُدُ ” میں “ک” کے نیچے زیر پڑھے اسی طرح “أَنْعَمْتَ” میں “ت” پر پیش یا زیر پڑھے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، تاہم اسے غلطی پر متنبہ کرنا واجب ہے، اگر اپنی اصلاح کر لے تو الحمد للہ، وگرنہ متعلقہ اداروں کو مطلع کریں اور وہ اس کے بارے میں کاروائی کرتے ہوئے اس سے اچھے امام کا انتظام کریں” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (7 /348)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر سورہ فاتحہ یا کسی اور سورت میں غلطی کی وجہ سے معنی ہی تبدیل ہو کر رہ جائے تو ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، ساتھ میں مسجد کے نمازیوں پر یہ بھی ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں کو اس بارے میں مطلع کریں، تا کہ امام اپنی اصلاح کر ے، یا تبدیل کر دیا جائے، چنانچہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ شہادتین کے بعد سب سے بڑے اسلام کے رکن کی امامت کیلئے اسے امام رکھا جائے، بلکہ اس شخص کو جس نے بھی امام مقرر کیا ہے وہ اللہ کے حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے یقینی گناہگار ہے؛ کیونکہ اس نے ایسے شخص کو امام مقرر کر دیا جو اس کا اہل ہی نہیں ہے، نمازیوں کے حقوق میں کمی کی وجہ سے بھی گناہگار ہے؛ کیونکہ اس نے نمازیوں کو اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر تشویش میں مبتلا کیا ہے، یا نمازیوں کو دور کسی اور مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے پر مجبور کیا ہے، اور یہ عمل ان کیلئے مشقت کا باعث ہے” انتہی
“فتاوى نور على الدرب” (182 /15)
چہارم:
اگر یہ امام سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے معنی تبدیل کر دینے والی واضح غلطی کرتا ہے تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد نماز دہرانا درست نہیں ہے؛ کیونکہ سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسی غلطی کرنے والے کے پیچھے سری یا جہری کوئی نماز جائز نہیں ہے، ویسے بھی اس کے پیچھے نماز ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی امامت تسلیم کر رہے ہیں، تو اس سے کوئی دوسرا بھی دھوکہ کھا سکتا ہے، بلکہ ایسا کرنا گناہ ہے، اسے تسلیم کرنے کی بجائے تبدیل کرنا ضروری ہے، چنانچہ تبدیلی کیلئے پہلا اقدام یہ ہے کہ اچھے طریقے سے اسے سمجھایا جائے اور درست انداز سے تعلیم دی جائے، اگر اپنی کمی کوتاہی ختم کر لے تو ٹھیک ورنہ جیسے کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ متعلقہ اداروں کو مطلع کریں، اور اگر امام کی اصلاح یا تبدیلی کیلئے ایسا کچھ بھی سود مند ثابت نہ ہو تو پھر آپ سب لوگوں کو بتلا دیں کہ اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، چنانچہ آپ کسی اور مسجد میں جا کر نماز ادا کریں جہاں پر امام کی تلاوت صحیح ہو۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“مسجد چھوڑنے کی کوئی قابل قبول وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آتی، البتہ اگر یہ امام ایسی غلطی کرتا ہے جس سے معنی تبدیل ہو جائے، یا امام کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے فاسق ہے [تو مسجد چھوڑ سکتے ہیں]” انتہی
“المنتقى من فتاوى الفوزان” (80 /29)
چنانچہ آپ کیلئے مکمل طور پر مسجد میں نماز با جماعت ترک کر کے گھروں میں اکیلے یا باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی جگہوں پر نماز با جماعت ادا کرنا ضروری ہے جہاں سے نمازوں کیلئے اذان دی جائے اور ذکر الہی بلند ہو۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (43737) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات