ميں يہ پوچھنا چاہتا ہوں كہ ابتدا ميں مسلمان بيت المقدس كى طرف رخ كر كے نماز كيوں ادا كرتے تھے، اور قبلہ كا رخ كيوں تبديل كيا گيا ؟
بيت المقدس سے قبلہ كى جانب تحويل قبلہ كيوں ہوا ؟
سوال: 1953
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مكہ سے مدينہ تشريف لائے تو بيت المقدس كى طرف ہى رخ كر كے نماز ادا كرتے رہے، اور تقريبا ايك برس چار يا پانچ ماہ تك اسى طرح نماز ادا كرتے رہے، جيسا كہ صحيح بخارى ميں براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں بيان ہوا ہے كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سولہ يا سترہ ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كر كے نماز ادا كى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پسند يہ فرماتے تھے كہ ان كا قبلہ بيت اللہ ہو…… ” الحديث.
پھر اس كے بعد اللہ سبحانہ وتعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بيت اللہ كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
اور آپ اپنا چہرہ مسجد حرام كى طرف پھير ليں، اور جہاں كہيں بھى تم ہو اپنے چہرے اس كى طرف پھير ليا كرو … البقرۃ ( 144 ).
اس ميں كيا حكمت تھى اس كے متعلق سوال كا جواب دينے سے قبل درج ذيل اشياء كا ذكر كرنا ضرورى ہے:
اول:
ہم مسلمان ہيں، جب ہميں اللہ تعالى كا حكم ملے تو ہم اس كو قبول كرتے اور اس پر عمل پيرا ہوتے ہيں، كيونكہ ايسا كرنا ہم پر واجب ہے ـ چاہے اس كى حكمت كا ہميں علم ہو يا نہ ہوـ جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور كسى مؤمن مرد اور عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے فيصلہ كے بعد اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا.. الاحزاب ( 36 ).
دوم:
اللہ سبحانہ وتعالى جو حكم بھى ديتا ہے اس ميں كوئى نہ كوئى عظيم حكمت ہوتى ہے ـ اگرچہ ہم اسے معلوم نہ كر سكيں ـ جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يہ اللہ تعالى كا حكم ہے، وہ تمہارے مابين فيصلہ كرتا ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے الممتحنۃ ( 10 ).
اس كے علاوہ بھى اس موضوع كے متعلق كئى ايك آيات ہيں.
سوم:
اللہ سبحانہ وتعالى كوئى بھى حكم منسوخ نہيں كرتا بلكہ اس كے بدلے ميں بہتر اور افضل حكم نازل فرماتا ہے، يا پھر اسى طرح كا حكم جيسا كہ اللہ تعالى نے اپنے درج ذيل فرمان ميں بيان كيا ہے:
ہم كوئى آيت منسوخ نہيں كرتے اور نہ ہى اسے بھلاتے ہيں مگر اس سے بہتر يا اس كى مثل لے آتے ہيں، كيا آپ جانتے نہيں كہ اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے البقرۃ ( 106 ).
جب يہ واضح ہو گيا تو پھر قبلہ تحويل كرنے ميں بھى كئى ايك حكمت پنہاں ہيں، جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
1 – سچے مؤمن كا امتحان اور اس كى آزمائش، سچا اور پكا مؤمن تو اللہ تعالى كا حكم قبول كرتا ہے، ليكن دوسرا نہيں، اور پھر اللہ تعالى نے اس كى تنبيہ كرتے ہوئے فرمايا:
جس قبلہ پر آپ پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس ليے مقرر كيا تھا كہ ہم جان ليں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سچا تابعدار اور مطيع كون ہے، اور كون ہے جو اپنى ايڑيوں كے بل پلٹ جاتا ہے، گو يہ كام مشكل ہے، مگر جنہيں اللہ تعالى نے ہدايت دى ہے ان پر كوئى مشكل نہيں…. البقرۃ ( 143 ).
2 – يہ امت مسلمہ سب امتوں سے بہتر امت ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
تم سب سے بہتر امت ہو جو لوگوں كے ليے نكالى گئى ہو .. آل عمران ( 110 ).
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے تحويل قبلہ كى آيات ميں ہى يہ فرمايا ہے:
اور اسى طرح ہم نے تمہيں عادل امت بنايا ہے .. البقرۃ ( 143).
وسط عدل اور بہتر كو كہتے ہيں، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اس امت كے ليے ہر چيز ميں خير اور ہر حكم اور امر ميں افضل اختيار كيا ہے، اور قبلہ بھى اسى ميں شامل ہوتا ہے، چنانچہ ان كے ليے ابراہيم عليہ السلام كا قبلہ اختيار فرمايا.
امام احمد نے مسند احمد ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل كتاب كے متعلق فرمايا:
” وہ ہم پر كسى اور چيز ميں اتنا حسد نہيں كرتے جتنا وہ ہمارے ساتھ جمعہ ميں حسد كرتے ہيں، جس كى اللہ تعالى نے ہميں ہدايت نصيب فرمائى، اور وہ لوگ اس سے گمراہ رہے، اور اس قبلہ پر ہمارے ساتھ حسد كرتے ہيں جس كى اللہ تعالى نے ہميں ہدايت دى اور وہ اس سے گمراہ رہے، اور ہمارا امام كے پيچھے آمين كہنے پر حسد كرتے ہيں ”
مسند احمد ( 6 / 134 – 135 ).
اس موضوع كے متعلق مزيد معلومات حاصل كرنے كے ليے آپ ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كى كتاب ” بدائع الفوائد ( 4 / 157 – 174 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد