اول:
ای سروسز ذاتی طور پر حلال یا حرام نہیں ہوتیں، بلکہ انہیں جس کام کے لیے استعمال کیا جائے اس کے اعتبار سے حلال یا حرام ہوتی ہیں، چنانچہ اگر کوئی انہیں ظلم، اذیت اور گناہ کے لیے استعمال کرے تو یہ حرام ہوں گی، اور اگر کوئی انہیں مفید ، مباح اور جائز کام میں استعمال کرے تو یہ جائز اور مباح ہوں گی۔
ایسی سروسز کے تیار کنندہ یا فروخت کنندہ کی ذمہ داری انتہائی محدود دائروں تک محدود ہوتی ہے:
پہلا دائرہ: ایسی سروسز کے تیار کنندہ پر لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ایسے انداز سے تیار کرے کہ انہیں حرام کاموں میں استعمال ہی نہ کیا جا سکے، اس کے لیے حرام استعمال کے عمومی طریقوں کے متعلق تفصیلی اور باریک بین جانکاری کا ہونا ضروری ہے، پھر اس کے بعد ان غلط طریقوں کی روک تھام کے لیے سوچ بچار کرے۔
دوسرا دائرہ: جس خریدار کے بارے میں غالب گمان ہو یا یقینی طور پر علم ہو کہ وہ اسے غلط استعمال کرے گا تو اس کے سامنے اپنی خدمت پیش نہ کرے اور نہ ہی فروخت کرے۔
لیکن اگر آپ کو خریدار کے بارے میں علم نہ ہو، یا آپ کو محض شک ہو ، یا آپ کو علم ہو کہ خریدار اسے جائز کام میں استعمال کرے گا، یا آپ صارف سے اس چیز کے غلط استعمال نہ کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں، تو پھر ان تمام صورتوں میں آپ بری الذمہ ہو جائیں گے، اور ان شاء اللہ شرعی طور پر آپ کسی بھی جوابدہی سے مبرا ہوں گے۔
مذکورہ تفصیلات کے متعلق مدلل گفتگو ہماری ویب سائٹ پر کئی بار گزر چکی ہے، اس کے لیے بطور مثال سوال نمبر: (105325 ) اور (169955 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انگور شراب بنانے والے شخص کو فروخت کر دئیے۔ مثلاً دکاندار کو اس بات کا علم ہو یا اسے گمان ہو، یا دکاندار کو خریدار کے کسی بھی ایسے اقدام کا علم ہو جو نافرمانی کے دائرے میں آئے، مثلاً: تازہ کھجوریں نبیذ بنانے والے کو فروخت کرنا، یا لڑاکا مرغے اور ٹکر مارنے والے مینڈھے جانوروں کی لڑائیاں کروانے والے کو فروخت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ یہ حرام کام میں معاونت ہے۔ تاہم یہ بیع درست ہو گی؛ کیونکہ ممانعت کی وجہ بذات خود یہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال ہے۔ لیکن اگر خریدار کے متعلق مبیع کو غلط استعمال کرنے کا شک ہو تو پھر بیع مکروہ ہے۔" ختم شد
" أسنى المطالب " (2/41)
یہاں اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ ایمیل ایڈریس اور فیس بک کے پسندیدہ شدہ پیجز فروخت کرنے میں راز داری کے اصولوں کو بھی مد نظر رکھنا لازم ہے، چنانچہ کسی کی رازداری پر کوئی قدغن نہیں آنی چاہیے، صرف اتنی ہی اجازت ہے جس قدر ان امور میں اجازت دی جاتی ہے، اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (135514 ) اور (174411) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم