ميں چاہتا ہوں كہ آپ مجھے اور ميرے بھائيوں كو سونے يا چاندى اور سونے كے زيورات جو كہ استعمال كے ليے ہوں تجارت كے ليے نہيں ميں زكاۃ كے موضوع ميں تفصيلى معلومات مہيا كريں.
كيونكہ بعض افراد كا كہنا ہے كہ: استعمال كے ليے تيار كردہ ميں زكاۃ نہيں ہے، اور دوسرے افراد كہتے ہيں: اس ميں زكاۃ ہے، چاہے وہ استعمال كے ليے ہو يا تجارت كے ليے.
اور يہ كہ استعمال كے ليے تيار كردہ ميں زكاۃ كے بارہ ميں وارد شدہ احاديث ان احاديث سے قوى ہيں جن ميں ہے كہ اس ميں زكاۃ نہيں، ميرى گزارش ہے كہ اس سوال كا جواب ديں ؟
استعمال كے ليے تيار كردہ سونے كى زكاۃ
سوال: 19901
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اہل علم كا اجماع ہے كہ جب سونے اور چاندى كا حرام زيور ہے تو اس ميں زكاۃ ہے، چاہے وہ استعمال كے ليے ہو يا تجارت وغيرہ كے ليے، ليكن اگر وہ زيور مباح اوراستعمال كے ليے ہو يا عاريتا جيسا كہ چاندى كى انگوٹھى، اور عورتوں كا زيور اور جو اسلحہ وغيرہ ميں مباح ہے، تو اس كى زكاۃ ميں اہل علم كا اختلاف ہے.
بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ اس ميں زكاۃ واجب ہے كيونكہ يہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم ميں شامل ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور وہ لوگ جو سونا اور چاندى جمع كر كے ركھتے ہيں، اور اسے اللہ تعالى كى راہ ميں خرچ نہيں كرتے انہيں المناك عذاب كى خبر دے ديں التوبۃ ( 34 ).
امام قرطبى رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے صحيح بخارى ميں اس كا معنى بيان كيا ہے:
انہيں ايك اعرابى كہنے لگا: مجھے آپ اللہ تعالى كے اس فرمان كے متعلق بتائيں:
اور وہ لوگ جو سونا اور چاندى جمع كر كے ركھتے ہيں.
تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: اسے كنز اور خزانہ بنانا يہ ہے كہ اس كى زكاۃ ادا نہ كى جائے، اس كے ليے ہلاكت ہے، يہ تو زكاۃ كے نزول سے قبل تھا، جب اللہ تعالى نے زكاۃ نازل فرما دى تو اسے اموال كے ليے پاكيزگى كا باعث بنا ديا.
اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے تعليقا روايت كيا ہے ( 2 / 111 ) اور ( 5 / 204 ) ميں بھى تعليقا، اور ابن ماجہ ( 1 / 569 – 570 ) حديث نمبر ( 1787 ) اور سنن بيہقي ( 4 / 82 ) اھـ
اور اس كى متقاضى احاديث بھى وارد ہيں، جسے ابو داود اور نسائى اور ترمذى رحمہ اللہ نے عمر بن شعيب عن ابيہ عن جدہ سے بيان كيا ہے كہ:
" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور اس كے ساتھ اس كى بيٹى تھى جس كے ہاتھ ميں دو سونے كے موٹے موٹے كنگن تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
كيا تم اس كى زكاۃ ادا كرتى ہو ؟
تو اس نے جواب نفى ميں ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
كيا تمہيں يہ اچھا لگتا ہے كہ اللہ تعالى روز قيامت اس كے بدلے ميں تمہيں آگ كے دو كنگن پہنائے؟
تو اس نے وہ دونوں اتار كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دے ديے اور كہنے لگى يہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ہيں"
مسند احمد ( 2 / 178 ) ( 204 – 208 ) سنن ابو داود ( 2 / 212 ) حديث نمبر ( 1563 ) سنن ترمذى ( 3 / 29 – 30 ) حديث نمبر ( 637 ) سنن نسائى ( 5 / 38 ) حديث نمبر ( 2479، 2480 ) دارقطنى ( 2 / 112 ) ابن ابى شيبۃ ( 3 / 153 ) اور ابو عبيد نے الاموال صفحہ نمبر ( 537 ) حديث نمبر ( 1260 ) طبع ہراس اور بيہقى ( 4 / 140 ) ميں روايت كي ہے.
اور سنن ابو داود، اور مستدرك حاكم اور دارقطنى اور سنن بيہقى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے، وہ بيان كرتى ہيں كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس آئے اور ميرے ہاتھوں ميں چاندى كے چھلے ديكھے تو فرمانے لگے:
" عائشہ يہ كيا ہے؟
تو ميں نے عرض كيا: ميں نے اس ليے بنوائے ہيں كہ آپ كے ليے انہيں بطور زينت استعمال كروں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم اس كى زكاۃ ادا كرتى ہو؟
تو ميں نے عرض كيا: نہيں، يا ما شاء اللہ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تجھے يہ آگ كے كافى ہيں"
ابو داود ( 2 / 213 ) حديث نمبر ( 1565 ) يہ ابو داود كے الفاظ ہيں، اور سنن دار قطنى ( 2 / 105 ) الحاكم ( 1 / 389 – 390 ) سنن بيہقى ( 4 / 139).
اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے سونے كى پازيب پہن ركھى تھيں تو ميں نے كہا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا يہ كنز ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جو زكاۃ كے نصاب تك پہنچ جائے اور اس كى زكاۃ ادا كر دى جائے تو وہ كنز نہيں ہے"
سنن ابو داود ( 2 / 212 – 213 ) حديث نمبر ( 1564 ) سنن دار قطنى ( 2 / 105 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 390 ) سنن بيہقى ( 4 / 83، 140 ).
اور بعض كا كہنا ہے كہ اس ميں زكاۃ نہيں؛ كيونكہ مباح استعمال لباس اور سامان كى جنس ميں سے ہو گيا ہے، نہ كہ قيمت كى جنس ميں سے ہے، اور انہوں نے آيت كے عموم كا جواب يہ ديا ہے كہ يہ اس كے ساتھ مخصوص ہے جس پر صحابہ كرام كا عمل تھا.
صحيح سند كے ساتھ عائشہ رضى اللہ تعالى سے مروى ہے كہ ان كى پرورش ميں ان كے بھائى كى يتيم بچياں تھيں اور ان كا زيور تھا جس كى وہ زكاۃ ادا نہيں كرتى تھيں.
اور دار قطنى نے صحيح سند كے ساتھ اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ وہ اپنى بيٹيوں كو سونے كا زيور پہناتى تھيں اور اس كى زكاۃ نہيں دى حالانكہ وہ پچاس ہزار كا تھا.
سنن دار قطنى ( 2 / 109 ).
اور ابو عبيد نے اپنى كتاب" الاموال " ميں بيان كيا ہے كہ:
حدثنا اسماعيل بن ابراہيم عن ايوب عن نافع عن ابن عمر: كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ اپنى بيٹيوں ميں سے كسى عورت كى شادى دس ہزار ميں كرتے اور اس ميں سے چار ہزار كا زيور بناتے، راوي بيان كرتے ہيں كہ وہ اس كى زكاۃ نہيں ديتے تھے.
دار قطنى نے بھى ايسے ہى بيان كيا ہے ( 2 / 109 ) اور ابو عبيد نے الاموال صفحہ نمبر ( 540 ) حديث نمبر ( 1276 ) طبع ہراس، سنن بيہقى ( 4 / 138 ).
ہميں اسماعيل بن ابراہيم نے ايوب سےاور انہوں نے عمرو بن دينار سے بيان كيا عمر بن دينار كہتے ہيں كہ: جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا: كيا زيور ميں زكاۃ ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: نہيں.
كہا گيا: چاہے دس ہزار كو بھى پہنچ جائے.
ابو عبيد نے الاموال صفحہ نمبر ( 540 ) حديث نمبر ( 1275 ) طبع ہراس سنن بيہقى ( 4 / 138 ).
اور ان دو اقوال ميں راجح قول اس كا ہے جو اس ميں زكاۃ واجب قرار ديتا ہے، جب نصاب كو پہنچ جائے، يا اس كے مالك كے پاس سونا اور چاندى يا دوسرا تجارتى سامان ہو جو سارا ملا كر نصاب كو پہنچے، اس كى دليل زكاۃ كے وجوب كى عمومى احاديث ہيں.
اور ہمارے علم كے مطابق ايسا كوئى مخصص نہيں، اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص، عائشہ، اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم كى مندرجہ بالا احاديث جن كى سند جيد ہے اور كوئى طعن ايسا نہيں جو موثر ہو اس ليے اس پر عمل واجب ہے.
رہا مسئلہ امام ترمذى اور ابن حزم اور موصلى كا ان كو ضعيف كہنے ميں تو ہمارے علم كے مطابق كوئى وجہ نہيں، يہ علم ميں رہے كہ امام ترمذى نے جو كچھ ذكر كيا ہے وہ اس ميں معذور ہيں؛ كيونكہ انہوں نے عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے ضعيف طريق سے روايت كى ہے.
اور ابو داود اور نسائى ابن ماجہ نے دوسرے صحيح طرق سے روايت كى ہے، اور ہو سكتا ہے امام ترمذى تك يہ نہ پہنچ سكى ہوں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے .
ماخذ:
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 264 )