شراب نوشي كرنےوالے كي سزا كيا ہے؟ اور كيا شرابي نمازكي ادائيگي اور رمضان كےروزے ركھ سكتا ہے ؟
شراب نوشي كرنےوالے كي سزا، اور كيا اس كي نماز روزہ صحيح ہے؟
سوال: 20037
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فرمان باري تعالي ہے:
اے ايمان والو! بات يہي ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندي باتيں اور شيطاني كام ہيں ان سے بالكل الگ تھلگ رہو تا كہ تم فلاح وكاميابي حاصل كرو المائدۃ ( 90 )
اور فرمان نبوي صلي اللہ عليہ وسلم ہے:
ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( زاني جب زنا كرتا ہے تو وہ زنا كرتے وقت مومن نہيں ہوتا، اور شراب نوشي كرنے والا جب شراب نوشي كرتا ہے تووہ اس وقت مومن نہيں ہوتا، اور چوري كرنےوالا جب چوري كرتا ہے تووہ مومن نہيں ہوتا، اور لوگوں سے مال چھننےوالا جب مال چھينتا ہے اور لوگ اس كي طرف آنكھيں اٹھائےہوئے ہوتے ہيں وہ اس وقت مومن نہيں ہوتا ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 2295 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 86 ) .
يعني وہ كامل ايمان والا نہيں ہوتا بلكہ اس برے اور قبيح فعل كي بنا پر اس كاايمان بہت زيادہ ناقص ہوتا ہے.
اور عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
( جس نےدنيا ميں شراب نوشي كي اورپھر اس سےتوبہ نہ كي آخرت ميں اس سے محروم رہےگا ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 5147 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3736 ) .
عمر رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: ( رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے شراب، اور شراب نوشي كرنےوالے، اور شراب پلانےوالے، اسے فروخت كرنے والےاور خريدنےوالے اسے تيار كرنےوالے اور تيار كروانےوالے، اسے اٹھا كرلے جانےوالے اور جس كي طرف لےجائي جارہي ہے ان سب پر لعنت فرمائي ). سنن ابوداود حديث نمبر ( 3489 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابوداود ( 2 / 700 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور سنن نسائي ميں ابن ديلمي سے روايت ہے انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالي عنھما سے كہا اےعبداللہ بن عمرو كيا آپ نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كوشراب كےبارہ ميں كچھ كہتے ہوئے سنا ہے؟
تووہ كہنےلگے: جي ہاں ميں نےرسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كويہ كہتےہوئےسنا:
( ميري امت ميں جوبھي شراب نوشي كرے اللہ تعالي اس كي چاليس دنوں تك نماز قبول نہيں فرماتا ) سنن نسائي حديث نمبر ( 5570 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے السلسلۃ الصحيحۃ ( 709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .
حديث كا معني يہ ہےكہ: اسےنماز كا اجروثواب حاصل نہيں ہوگا، يہ نہيں كہ اس پر نماز ہي واجب نہيں، بلكہ اس سب نمازوں كي ادائيگي واجب ہے اگر اس نےاس وقت ايك نماز بھي ترك كردي تووہ كبيرہ گناہوں ميں ايك كبيرہ اور عظيم گناہ كا مرتكب ہوگا، حتي كہ بعض علماء كرام نےاسے كفر تك پہنچايا ہے . اللہ اس سےبچا كرركھے.
شراب نوشي كي شديد حرمت پر بہت سي احاديث اور آثار دلالت كرتے ہيں، اور يہ شراب ام الخبائث يعني گندگي كي جڑ ہے، جوشراب نوشي ميں پڑ جائے اس ميں اس كےعلاوہ دوسرے حرام كام كرنے كي جرات پيدا ہو جاتي ہے، اللہ تعالي ہميں اس سےبچا كرركھے.
اور رہا مسئلہ كہ دنيا ميں شراب نوشي كي سزا كيا ہے ؟ اس كي سزا كے بارہ ميں علماء كرام كا اتفاق ہے كہ شراب نوش كو كوڑے مارے جائيں گےاس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
انس رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے شراب ميں كھجور كي ٹہني اور جوتوں سے سزا دي .
اور كوڑوں كي تعداد ميں علماء كرام كا اختلاف ہےجمہور علماء كا كہنا ہے كہ آزاد شخص كو اسي كوڑے ماريں جائيں گے اور اس كے علاوہ كو چاليس مارے جائيں گے.
انہوں مندرجہ بالا انس رضي اللہ تعالي كي حديث سے استدلال كيا ہے اس ميں ہے كہ:
نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس ايك شخص كو لايا گيا اس نے شراب پي ركھي تھي تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اسے دو چھڑيوں سے چاليس كوڑے لگائے، راوي كہتےہيں كہ ابوبكر رضي اللہ تعالي نے بھي ايسے ہي كيا اورجب عمر رضي اللہ تعالي كا دور تھا توانہوں نے لوگوں سے مشورہ كيا تو عبدالرحمن رضي اللہ تعالي عنہ نےكہا كہ حدود ميں كم از كم اسي ہيں تو عمر رضي اللہ تعالي عنہ نے اسي كا حكم ديا .
اور صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنھم نے اس كي موافقت كي اور كسي نے بھي ان كي مخالفت نہ كي.
كبار علماء كرام كميٹي نے يہ فيصلہ كيا ہے كہ: شراب نوشي كي حد ہے اور يہ حد اسي كوڑے ہيں .
بعض علماء كرام مثلا ابن قدامہ رحمہ اللہ اور شيخ الاسلام نے الاختيارات ميں يہ موقف اختيار كيا ہے كہ: چاليس سے زيادہ امام المسلمين يعني حكمران پر منحصر ہے اگر تووہ چاليس سےزيادہ كي حاجت اور ضرورت محسوس كرتا ہے جيسا كہ عمر فاروق رضي اللہ تعالي عنہ كےدور ميں تھا تو وہ اسي كوڑے تك سزا مقرر كرسكتا ہے .
واللہ تعالي اعلم ، ديكھيں : توضيح الاحكام ( 5 / 330 )
اورشراب نوشي كرنے والے كي نماز اور روزے كےبارہ ميں گزارش يہ ہےكہ بلاشك وشبہ اس پر اوقات مقررہ ميں نماز كي ادائيگي اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا واجب ہيں، اگروہ نماز كي ادائيگي ميں تھوڑي بھي كمي كرتا ہے يا پھر روزہ نہيں ركھتا تو وہ گناہ كبيرہ كا مرتكب ہو رہا ہے جو كہ شراب نوشي سے بھي عظيم اور كبيرہ گناہ ہے .
فرض كريں اگر وہ رمضان المبارك ميں دن كےوقت شراب نوشي كرتا ہے تو اس نے اللہ تعالي كي دو بہت بڑي نافرمانياں كيں، ايك تو اس نےرمضان المبارك ميں دن كو روزہ نہيں ركھا اور دوسرا شراب نوشي كي ہے، اسے يہ علم ميں ركھنا چاہيے كہ مسلمان شخص كا معصيت ميں پڑنا اور توبہ نہ كرنا بلكہ توبہ كرنے سےعاجزہونا اس كےكمزور ايمان كي نشاني ہے، اس كےلائق اور شايان شان نہيں كہ وہ معصيت ونافرماني پر اصرار كرے اور اس كا عادي بن جائے، يا پھر اطاعت وفرمانبرداري ترك كركے اس ميں كمي و كوتاہي كا مرتكب ہوتا رہے.
بلكہ اس پر واجب اور ضروري ہے كہ حسب استطاعت اور جتني بھي اطاعت وفرمانبرداري كرسكتا ہے اس كي كوشش كرے اور ايسے كام ترك كرنے كي كوشش كرے جن كي بنا پر كبيرہ گناہ اور ہلاكت والے كام كا مرتكب ہوتا ہے، اللہ تعالي سے ہماري دعا ہے كہ ہميں ہر صغيرہ اور كبيرہ گناہوں سے محفوظ ركھے يقينا اللہ تعالي سننےوالا اور قريب ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب