ایسی خاتون کا کیا حکم ہے جو حمل کے نویں ماہ میں تھی اسے زچگی کی درد شروع ہوئی اور ڈاکٹر کے پاس جانے میں اس سے تاخیر ہوگئی، یا دیگر الفاظ میں یوں کہیں کہ : پرواہ نہیں کی اور ہسپتال نہ گئی، اور جس وقت ہسپتال پہنچی تو بچہ مر چکا تھا، ڈاکٹروں کا کہنا تھا: یہ خاتون تاخیر سے پہنچی ہے، اور بچہ گلہ گھٹنے کی وجہ سے فوت ہوا ہے، یاد رہے اس سے وہ پہلے چار بچوں کی ماں ہے، اور اسے زچگی کی دردوں کا بھی علم ہے۔ تو کیا اس پر دیت یا کفارہ ہے؟
ڈاکٹر کے پاس جانے میں دیر ہونے کی وجہ سے پیٹ میں موجود بچہ فوت ہوگیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
سوال: 200711
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر حقیقت یہی ہے جو بیان کی گئی تو اس صورت میں خاتون پر کچھ نہیں ہے، نہ دیت، نہ کفارہ، اور نہ کوئی گناہ؛ اس لئے کہ اصل یہ ہےکہ انسان بری الذمہ ہے، اور ڈاکٹر سے فوری رجوع نہ کرنے کی وجہ سے اس خاتون کو لاپرواہ نہیں کہا جاسکتا ؛ اس لئے کہ یہ عام سی بات ہے، کہ حاملہ خواتین ڈاکٹر سے اسی وقت رجوع کرتی ہیں جب زچگی کا وقت انتہائی قریب ہو؛ کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ درد ایک دو دن رہے گا؛ اور کبھی اس لئے فوراً رجوع نہیں کرتیں کہ انہیں اپنے بچے کی طبعی ولادت کی امید ہوتی ہے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں جلد بازی میں ڈاکٹر آپریشن نہ کر دیں۔
دائمی کمیٹی (21/385)کے علماء سے اسی سے ملتا جلتا سوال پوچھا گیا:
ایک عورت کے ہاں بچی پید ا ہوئی اور اس نے بلیڈ کے ساتھ آنول کاٹ دیا، اور پھر دیہاتی ماحول کے معمول کے مطابق باندھ بھی دیا، پھر دو دن گزرنے کے بعد ہسپتال میں جب گئے تو ڈاکٹر نے بتلایا کہ آنول میں گندے خون کے جمع ہونے کی وجہ سے کینسر ہو گیا تھا، جس سے زہریلا مادہ بنا اور بچی اسی وجہ سے فوت ہوگئی۔
فضیلۃ الشیخ ! یاد رہے کہ یہ خاتون اس سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ اسی طرح کرتی تھی، جیسے اس فوت ہونے والی بچی کے ساتھ کیا، بلکہ اسکے بعد بھی ایک بچی کی پیدائش پر بالکل یہی عمل دہرایا اور اللہ کے حکم سے کچھ بھی نہیں ہوا، تو سوال یہ ہے کہ کیا اب اس خاتون کو کفارہ دینا ہوگا؟
تو کمیٹی کے ارکان نے جواب دیا:
“مذکورہ صورتِ حال میں بچی کے فوت ہونے کی وجہ سے اس خاتون پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی کفارہ ہے،اس لئے کہ آنول کاٹنا خواتین میں معمول کا کام ہے، اور ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکی جس سے اس خاتون کو بچی کے مرنے کا سبب بنایا جاسکے، اور اصل یہ ہے کہ انسان بری الذمہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ کوئی اس کے خلاف شواہد ملیں”
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد آپکی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔
دائمی کمیٹی برائے علمی مباحث و الافتاء۔
رکن: بكر بن عبد الله ابو زيد ۔ رکن: صالح بن فوزان الفوزان۔
نائب رئیس: عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ۔ رئیس: عبد العزيز بن عبد الله بن باز
ایسے ہی ” فتاوى اللجنة الدائمة ” (21/404) میں یہ بھی ہے کہ:
” میرے حمل کا نواں ماہ تھا ، مجھے کچھ درد محسوس ہوا جس کی وجہ سے مجھے ہسپتال رجوع کرنا پڑا، تو مجھے متعلقہ ڈاکٹر نے بتلایا کہ بچے کو بچانے کیلئے فوراً آپریشن کرنا پڑے گا، اس لئے کہ طبعی طریقے سے ولادت مشکل ہے، میں نے ڈاکٹر کی رائے کو مسترد کردیا، تو ڈاکٹر نے مجھے کہا؛ اگر جلدی سے آپریشن نہیں ہوگا تو یہ بچے کیلئے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے، اور اس میں بچے کی جان بھی جا سکتی ہے، اور پھر واقعی بچہ میرے پیٹ ہی میں چند دنوں کے بعد فوت ہوگیا۔
فضیلۃ الشیخ! کیا اس پر مجھے گناہ ملےگا؟ اور کیا میں ہی اس بچے کی وفات کا سبب بنی ہوں؟اس لئے کہ میں نے آپریشن نہیں کروایا، حالانکہ اس سے بچے کی زندگی کو لاحق خطرہ اللہ کے حکم سے ٹل بھی سکتا تھا، جیسے کہ مجھے ڈاکٹر نے باخبر بھی کیا تھا، تو کیا مجھ پر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا کفارہ لازم ہے؟
جواب: اگر صورتِ حال ایسے ہی ہے جیسے بیان کی گئی ہے تو بچے کے فوت ہونے کی وجہ سے آپ پر کچھ نہیں ، اس لئے کہ آپ آپریشن نہ کروا کر بچے کی وفات کا سبب نہیں بنی بلکہ آپ نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا تھا؛ اور یہ بھی امکان تھا کہ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق آپریشن کامیاب نہ ہوتا، اور ، اصل یہی ہے کہ انسان ہر حکم سے بری الذمہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد آپکی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے” انتہی
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب