ایک شخص کی موجودہ بیوی کے علاوہ کسی اور خاتون سے ایک غیر شرعی بیٹی تھی، چنانچہ جب اس لڑکی کی حقیقی ماں فوت ہوگئی تو موجودہ بیوی نے بچی کو اپنی پرورش میں لے لیا، بیوی نے بچی کی ایسے ہی پرورش کی جیسے اسکی اپنی اولاد ہو، اور لوگوں کو غلط بیانی کرتے ہوئے اس نے یہی بتلایا کہ یہ اسکی پہلی بیٹی ہے، مقصد یہ تھا کہ اپنے خاوند کی زنا والی غلطی پر پردہ رہے، سماج میں بیٹی کو اچھا مقام بھی ملا؛ اسی لئے خاتون نے یہاں تک جھوٹ بول دیا کہ اس نے ہی اس لڑکی کو جنم دیا ہے، لڑکی کی تو اب شادی ہوچکی ہے، اور سب لوگوں کو یہی بتلایا گیا کہ اس لڑکی کی پرورش کرنے والی خاتون ہی اسکی والدہ ہے، لیکن اس لڑکی کو معلوم ہے کہ یہ اسکی حقیقی ماں نہیں ہے۔ اب یہ لڑکی اپنے خاوند کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا چاہتی، اور اسے یہ بھی نہیں پتا کہ وہ اب کیا کرے!؟ تو کیا ایسی صورتِ حال میں کہ جانتے ہوئے بھی کسی کے بارے میں اپنی ماں ہونے کا دعوی کرنا حرام ہوگا؟ اور کیا اس صورت میں جھوٹ بولنا جائز ہوگا؟
کیا کوئی خاتون اپنے خاوند کی غیر شرعی بیٹی کو اپنی بیٹی ظاہر کرسکتی ہے؟
سوال: 200792
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر خاتون نے اس لڑکی کو دو سال کی عمر سے قبل پانچ رضعات[ایک بار بچہ پستان منہ میں لیکر دودھ چوسے تو اسکو رضعہ کہتے ہیں، جسکی جمع رضعات ہے] دودھ پلایا تو دودھ پلانے والی یہ خاتون اسکی ماں بن جائے گی، اور ایسی صورت میں یہ کہنا کہ یہ میری بیٹی ہے، مقصود یہ ہو کہ میری رضاعی بیٹی ہے؛ تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
اور اگر رضاعت [دو سال کی عمر سے پہلے دودھ پلانا]ثابت نہ ہو تو وہ تَورِیَہ [ذومعنی] بات کرسکتی ہے، مثال کے طور پر وہ خاتون یہ کہے کہ: “یہ میری بیٹی ہے” مطلب یہ ہو کہ :”میری بیٹی کی طرح ہے” اسی طرح یہ لڑکی کہے: “یہ میری ماں ہے” مطلب یہ ہو کہ: “عزت و احترام میں میری ماں کی طرح ہے”
اور لوگوں کے سامنے بھی اسی طرح ایک دوسرے کو پکارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہمارے بیان کردہ طریقے کو اپنانے کا مقصد خاوند کی ستر پوشی ، اور لڑکی جذبات کا خیال ہے، اور اس کو جھوٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔
لیکن واضح لفظوں میں یہ کہنا کہ کہ وہ اسکی حقیقی ماں ہے، تو یہ جھوٹ ہے جو کہ جائز نہیں، یہ گناہ ہے جس سے توبہ کرنی ضروری ہے، جبکہ لوگوں کے ذہنوں میں موجود تصور کو درست کرنے کیلئے انکے سامنے اپنی بات سے رجوع کرنا ضروری نہیں ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب