میرے والد صاحب مکان بنا رہے ہیں، لیکن مکان کی تعمیر ابھی مکمل نہیں ہوئی ،ان کا ارادہ ہے کہ جانور ذبح کریں ، کیا ان کے لیے جائز ہے کہ ابھی جانور ذبح کر لیں، یا مکان کی تعمیر مکمل ہونا ضروری ہے ؟
اور کیا گھر میں ہی ذبح کرنا ضروری ہے یا کہ قصاب کے ہاں بھی جائز ہے ؟
اور کیا ذبیحہ مینڈھا ہی ہو یا کہ مرغی اور خرگوش بھی جائز ہے ؟
کیا نئے گھر کے لیے اس کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے جانور ذبح کرنا جائز ہے ؟
سوال: 202027
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
گھر کی تعمیر کے دوران یا اس کے مکمل ہونے پر جانور ذبح کرنے کی دو صورتیں ہیں :
پہلی صورت :
ذبح کرنے کا مقصد جنوں سے پناہ ،یا ان کے شر سے بچنا مقصود ہو ،یا نظر بد وغیرہ جیسے غلط اعتقادات و نظریات ہوں ،تو یہ کام گناہ ہے بلکہ اگر اس کا مقصد جنوں کی رضا حاصل کرنا ،یا ان کا قرب مقصود ہو تو یہ کام شرک اکبر تک جا پہنچتا ہے کیوں کہ ذبح کرنا عبادت ہے اور عبادت اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے ۔
دوسری حالت:
اگر ذبح کرنے کا مقصد خوشی و مسرت کا اظہار اور نعمت کے پورے ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنا ہو تو یہ جائز ہے ، اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے ، اس حالت میں ذبح کرنا ہر صورت جائز ہو گا خواہ عمارت کی تعمیر کے درمیان میں ہو یا اختتام پر ، گھر میں ہو یا قصاب کے ہاں ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ نئے گھر کی تعمیر کے اختتام پر دعوت کرنا مستحب ہے ،اس کا نام ان کہ ہاں "الوکیرۃ" ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ولیمہ کے علاوہ باقی تمام دعوتیں ،مثلاً : ختنے کی دعوت ،جس کا نام "إعذار" یا " عذیرۃ "، رکھتے ہیں ، اسی طرح بچے کی پیدائش پر کی جانے والی دعوت:"خرس" یا "خرسۃ" ہے، مکان کی تعمیر کی دعوت "الوکیرۃ" ، اور لا پتہ فرد کی واپسی پر دعوت "النقيعة" ، بچے کے کسی کام میں ماہر ہونے پر دعوت "الحذاق" ،اور کسی بھی عام دعوت"مأدبة" کہتے ہیں خواہ کسی سبب سے ہو یا بغیر کسی سبب کے ،یہ تمام دعوتیں مستحب ہیں ،کیونکہ اس میں کھانا کھلایا جاتا ہے اور نعمت کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن ان دعوتوں میں ولیمے کی دعوت کی طرح شرکت ضروری نہیں ہے " انتہی
الکافی (3/120 )
دوسری بات یہ ہے کہ بکری یا اس سے بڑا جانور ذبح کرنا اگر ممکن ہو تو یہ بہت اچھی بات ہے، ورنہ جو میسر ہو اسے ذبح کر دیا جائے خواہ وہ مرغی ہی کیوں نہ ہو ۔
مرداوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"(اور یہ مستحب ہے ) یہی موقف ہمارے [حنبلی]فقہاء کا ہے ،خواہ ایک بکری یا اس بھی چھوٹا جانور ہو ، یہ بات انہوں نے "رعایتین" ،"الحاوی الصغیر "، اور "الفروع " وغیرہ میں ذکر کی ہے "انتہی
"الانصاف "(8/316)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے قصے میں مروی ہے کہ :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ولیمے میں کھجور ،پنیر اور گھی (کا حلوہ ) تیار کیا ۔
مسند احمد: (13575)، مسلم : (1365)
اور ایک روایت میں ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر اور مدینہ کے درمیان (شادی کے بعد)تین دن صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے ،وہاں میں نے مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمے کی دعوت دی ، ولیمے میں نہ گوشت تھا نہ روٹی ، صرف ایک چٹائی پر کھجوریں ، پنیر ، اور گھی ڈال دیا گیا ، لوگوں نے [آپس میں ] سوال کیا کہ صفیہ لونڈی ہے یا کہ آپ کی زوجہ اور مومنوں کی ماں ؟ [بعض کی طرف سے ]جواب دیا گیا کہ اگر آپ اسے پردہ کروائیں گے تو وہ مومنوں کی ماں ہو گی [یعنی آپ کی زوجہ ] ورنہ لونڈی ، چنانچہ جب آپ نے کوچ فرمایا تو صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے بٹھایا اور پردہ گرا دیا " انتہی
متفق علیہ
صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اس میں (دلیل ہے ) کہ ولیمہ بکری ذبح کیے بغیر بھی ہو جاتا ہے " انتہی
"سبل السلام " (2/232)
خلاصہ یہ ہے کہ :
اگر مقصد اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرنا ، اور خوشی کا اظہار ہے تو آپ کے والد پر کوئی حرج نہیں جو جانور میسر ہو ذبح کر دے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کسی غلط نظریے کی بنیاد پر جانور ذبح نہ کیا جائے ۔
اور یہ جانو راب بھی ذبح کیا جاسکتا ہے ہمارے خیال میں اس میں کوئی اعتراض والی بات نہیں ہے ،اگر چہ فقہائے کرام کے ہاں یہ کام مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر ہونا چاہیے ،لیکن ظاہر یہ ہوتا کہ یہ بات انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کی عادت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہی ہے ۔
ذبح کرنے کے لیے کوئی بھی جگہ متعین نہیں ہے ، ہاں اگر گھر میں بکری ذبح کرنے سے کسی باطل نظریے کا ڈر ہو تو بہتر یہ ہے کہ گھر سے دور ذبح کیا جائے تاکہ اس مکان میں ذبح کرنے سے فائدہ ہونے کا وہم نہ آئے اور یہ کام شرک اور غیر اللہ سے تعلق کے لیے سد ذریعہ ہو۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب