میرے والد –اللہ ان پر رحم کرے- فوت ہوگئے ہیں، اور وراثت میں ایک مکان چھوڑا ہے، جس میں میری والدہ ، (30 سالہ)چھوٹا بھائی اور (35 سالہ) بہن رہتی ہے، ہمارا خاندان والدہ، سات بیٹے اور ایک بہن پر مشتمل ہے، میرے تین بھائیوں نے گھر میں سے ملنے والے حصہ کی رقم کا مطالبہ کیا ہے، تو ہم نے اتفاق کرکے انکا حصہ نقدی دے دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنا حصہ نقدی لے لے اور پھر بھی اسی مکان میں رہے؟ اسکی کیا شرائط ہیں؟
کیا اپنی والدہ کو وراثت میں ملنے والے مکان کا حصہ دے سکتا ہے؟ کہ والدہ اس میں رہائش اختیار کرے۔
سوال: 203169
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
وارث کیلئے مکان کی شکل میں ترکہ کی صورت میں اپنا حق نقدی لینا جائز ہے، اور مکان کے اس حصہ کا وہ شخص مالک ہو جائے گا جس نے یہ رقم ادا کی ہوگی، اور اس سے یہ حصہ خریدا ہوگا، چاہے خریدار ورثاء میں سے کوئی ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔
اس بنا پر ، اگر آپکی والدہ نے مکان میں سے اپنے حصہ کی رقم لے لی ہے تو اب انکا اس مکان میں مالکن کی حیثیت سے کوئی حصہ نہیں ہے، جبکہ وہ اپنی رہائش اس گھر میں رکھ سکتی ہیں، بشرطیکہ بقیہ ورثاء جن کا اس مکان میں حصہ ہے وہ راضی ہوجائیں اور اجازت دے دیں۔
دائمی کمیٹی کے فتوی (16/509)میں ہے: “ورثاء میں سے کسی کیلئے فوت ہوجانے والے کے گھر میں رہائش کی اجازت نہیں ہے، اِلاّ کہ اس مکان کے ورثاء رہائش کی اجازت دے دیں، کیونکہ یہ مکان اب میت کی ملکیت سے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوچکا ہے” انتہی
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب