سوال: کیا مُردوں کو قبروں سے ہٹ کر کسی اور جگہ دفن کرنا صحیح ہے؟ مثلا: زمین کے نیچے متعدد مُردوں کیلئے کافی ایک بہت بڑا گڑھا کھودا جائے، اور پھر اس میں الماریوں جیسے پتھر رکھے جائیں، اور ان الماریوں میں مُردوں کو رکھا جائے، اور جس وقت یہ الماریاں بھر جائیں ، اس گڑھے کو بہت بڑے پتھر کیساتھ بند کر دیا جائے۔
مُردوں کو زمین کے نیچے بنائے گئے بڑے کمرے میں ایک دوسرے کے اوپر دفن کرنے کا حکم
سوال: 203334
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ضرورت کے وقت ایک سے زائد میت کو ایک ہی قبر میں دفن کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ اصل کے خلاف ہے کہ ہر میت کو الگ قبر میں دفن کیا جائے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:
” شریعتِ اسلامیہ کا اصول یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہر میت کو ایک قبر میں علیحدہ دفن کیا جائے، اور اس کے ساتھـ کسی اور کو دفن نہ کیا جائے، نہ اسی وقت فوت شدہ میت کو اور نہ اس کے بعد فوت شدہ شخص کی میت کو اس کے ساتھـ دفن کیا جائے، نیز یہ بھی اصول ہے کہ ایک مدت گزر جانے کے بعد میت کی قبر کھودنا اور اس کو قبر سے نکالنا اور پھر اس کو ایک دوسرے گڑھے میں ڈالنا جائز نہیں ہے۔
مگر ہاں جب جگہ کی تنگی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو، اور اس کے علاوہ کوئی دوسری جگہ بھی نہ ہو، یا ہر ایک میت کو علیٰحدہ علیٰحدہ قبر میں دفن کرنے میں مشقت ہو، یعنی کہ کسی وبا یا قتل کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو، تو ایسی صورت میں ایک ہی قبر میں ایک سے زائد میت کو دفن کرنا جائز ہے”انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (7/ 285)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“شرعاً یہی ہے کہ ہر انسان کو الگ قبر میں دفن کیا جائے، جیسے کہ شروع سے اب تک مسلمانوں کا یہ طریقہ چلا آرہا ہے، لیکن جب دو یا دو سے زائد میت کو ایک ہی قبر میں اکٹھے کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر دو اور تین صحابہ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا۔
اور ایسی صورت میں جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے مقدم کیا جائے ، کیونکہ وہ افضل ہے، اور دونوں کو ایک دوسرے کے پہلو میں لٹایا جائے۔
فقہائے کرام کہتے ہیں: “ہر دو میت کے درمیان مٹی کی رکاوٹ بنا دینی چاہئے”انتہی
“مجموع فتاوى ورسائل عثیمین” (17/ 213)
مزید کیلئے سوال نمبر: (96667) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
“مسنون یہی ہے کہ میت کیلئے زمین میں قبر کھودی جائے، اور پھر بغلی قبر بنائی جائے، یعنی گڑھا کھود کر گڑھے کی قبلے والی جانب اندر ایک اور گڑھا کھود کر اس میں میت کو رکھا جائے”
“فتاوى نور على الدرب” از: عثیمین (9/ 2) شاملہ کی ترتیب کے مطابق
اور دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے کہا ہے کہ:
“دفن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ: زمین میں میت کے قد کے برابر لمبا مستطیل گڑھا کھودھا جائے، پھر اس گڑھے کی قبلہ والی جانب بغلی قبر کیلئے گڑھا کھودا جائے، تا کہ اس میں میت کو قبلہ رُخ کر کے دائیں پہلو پر لٹا دیا جائے، پھر اس پر کچی اینٹیں لگا دی جائیں، اور میت پر مٹی کو گرنے سے روکنے کیلئے اینٹوں کے درمیان گیلی مٹی لگا دی جائے، اور پھر اس پر مٹی ڈال دی جائے”انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (8/ 384)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“ہمارے ہاں قبریں سنگ مرمر وغیرہ سے بنائی جاتی ہیں، اور دفن کرنے کی جگہ کو زمین کے نیچے گھروں کی طرح بنایا جاتا ہے، جہاں پر مُردوں کو رکھا جاتا ہے، تو کیا یہ عمل جائز ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“قبروں پر تعمیراتی کام، اور بلڈنگ بنانا، اور اسے پختہ بنانا گناہ اور ناجائز ہے۔
جبکہ زمین میں گڑھا کھود کر اس میں مُردوں کو رکھنا خلافِ سنت ہے؛ کیونکہ سنت یہ ہے کہ ہر میت کو الگ قبر میں دفن کیا جائے، اس کیلئے بغلی قبر بنائی جائے، اور ہر ایک میت کو الگ الگ قبر میں دفن کیا جائے، یہ ہے سنت ، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایسے ہی کیا تھا، اور آپکے بعد مسلمان ایسے ہی کرتے آرہے ہیں۔
لیکن اگر کثرتِ اموات کی وجہ سے ہر ایک کو الگ قبر میں دفن کرنامشقت طلب ہو تو دو یا تین میت کو ایک قبر میں جمع کیا جا سکتا ہے”انتہی
“فتاوى نور على الدرب” (14/ 96)
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ :
مذکورہ بالا صورت میں مُردوں کو دفن کرنے کیلئے زمین کے نیچے گڑھا کھودنا غیر شرعی عمل ہے، اور شرعی عمل یہ ہے کہ ہر ایک میت کو الگ سے شریعت کے مطابق دفن کیا جائے، اور پھر اوپر اسکی قبر بنائی جائے، اور ایک قبر میں ایک سے زائد افراد کو ضرورت کے وقت ہی دفن کیا جا سکتا ہے۔
اور سنت سے بعید ترین یہ صورت ہے کہ میتوں کو الماری کی شکل کے پتھروں پر ایک دوسرے کے اوپر رکھا جائے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب