0 / 0

عورت نے اپنے رب سے كسى چيز كا عہد كيا اور اب اسے توڑنا چاہتى ہے

سوال: 20419

اگر كوئى عورت رب سے كيے ہوئے وعدہ كو ختم كرنا چاہے تو وہ كيا كرے؟

اس نے يہ وعدہ كسى دوسرے شخص پر غصہ كى حالت ميں كيا تھا، ليكن يہ عہد صرف اس كے اور اللہ كے درميان تھا، اور اب كچھ مدت گزرنے كے بعد وہ اس عہد سے رجوع كرنا چاہتى ہے، اسے توبہ كرنے كے ليے كيا كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اللہ تعالى سے كسى چيز كا عہد كرنا نذر كے الفاظ ميں سے ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 38934 ) كا جواب ديكھيں.

اور پھر اللہ تعالى نے بھى وعدہ پورا كرنے اور بے وفائى سے منع فرمايا ہے چاہے وہ وعدہ اللہ سبحانہ وتعالى كے ساتھ ہو يا پھر مخلوق كے ساتھ.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب تم عہد كرو تو اللہ تعالى كے عہد كو پورا كرو .

اور ايك دوسرے مقام پر كچھ اس طرح فرمايا:

اور ان ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو اللہ تعالى سے عہد كرتے ہيں كہ اگر تو نے ہميں اپنے فضل سے نوازا تو ہم تيرى راہ ميں صدقہ و خيرات كرينگے اور نيك و صالح لوگوں ميں ہونگے، اور جب اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے نوازتا ہے تو وہ بخل كرنے لگتے ہيں، اور وہ اعراض كرتے ہوئے پھر جاتے ہيں، تو اللہ تعالى اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال دے گا اس دن تك جب وہ اس سے مليں گے، اس كے سبب كہ انہوں نے وعدہ كرنے كے بعد اللہ تعالى سے وعدہ خلافى كى، اور جو وہ كذب بيانى كرتے تھے التوبۃ ( 75 – 77 ).

اور اس كا محل يہ ہے جب اطاعت والا فعل كرنا مراد ہو، مثلا انسان اپنے رب سے عہد كرے كہ وہ سچ بولے گا اور كذب بيانى سے كام نہيں لےگا، يا پھر اپنے مال ميں سے صدقہ كرے گا، اور يہ نذر ميں داخل ہے، اگرچہ قائل نذر كے الفاظ كى صراحت نہيں كرتا.

لہذا جس شخص نے بھى اللہ تعالى سے عہد كيا، يا يہ كہا: ميرے ذمہ ہے كہ ميں اس ميں سے كچھ اللہ تعالى كے ليے كرونگا، تو اس كا پورا كرنا لازم ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جس نے اللہ تعالى كى اطاعت كرنے كى نذر مانى وہ اس كى اطاعت كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كى نذر مانى وہ اس كى نافرمانى نہ كرے”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3618 ).

اس نذر كے پورى كرنے كے التزام ميں كوئى خلل پيدا كرنا جائز نہيں ہے ليكن اگر انسان مطلق طور پر اسے پورا كرنے سے عاجز ہو جائے، تو پھر وہ قسم كا كفارہ ادا كرے؛ كيونكہ حديث ميں ہے:

” اور جس نے كوئى ايسى نذر مانى جسے پورا كرنے كى اس ميں استطاعت نہ ہو تو اس كا كفارہ قسم كا كفارہ ہے ”

اسے ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے ديكھيں: حديث نمبر ( 3322 )، حافظ رحمہ اللہ تعالى نے فتح البارى ميں كہا ہے كہ: ( اس كے راوى ثقات ہيں، ليكن ابن ابى شيبہ نے موقوف روايت بيان كى ہے، اور وہ مشابہ ہے ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى ” المغنى ” ميں كہتے ہيں:

( اور بالجملہ يہ كہ: جس نے بھى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر مانى جس كى وہ استطاعت نہيں ركھتا، يا اس پر قادر تھا ليكن اس سے عاجز ہو گيا تو اس پر قسم كا كفارہ ہے ).

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 10 / 72 ).

ليكن اگر وہ عمل جس كا التزام مراد ہے وہ معصيت و نافرمانى ہے تو اسے پورا كرنا جائز نہيں، وہ اس طرح كہ كوئى انسان اپنے رب سے عہد كرے كہ وہ اپنے بھائى سے كلام نہيں كرے گا اور نہ ہى اس سے ملے گا، اور اس كا كوئى شرعى سبب بھى نہ ہو.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” اور جس نے اللہ تعالى كى نافرمانى اورمعصيت كى نذر مانى تو وہ اس كى معصيت و نافرمانى نہ كرے”

تو اس وقت معصيت كا عہد كرنے پر اللہ تعالى سے توبہ كرنى اور قسم كا كفارہ ادا كرنا لازم ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” معصيت و نافرمانى ميں نذر نہيں، اور اس كا كفارہ قسم كا كفارہ ہے”

مسند احمد حديث نمبر ( 2640 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3290 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1524 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3834 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2125 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اسى طرح اگر وہ اللہ تعالى سے كسى كام پر عہد كرتا ہے، اور پھر وہ اس كے علاوہ كوئى اور كام اس سے بہتر ديكھتا ہے، جيسے كہ اگر كوئى شخص اپنے كسى قريبى رشتہ دار يا دوست كے ساتھ حسن سلوك اور اس پر خرچ نہ كرنا چاہے، تو اس عہد كو پورا كرنا واجب نہيں ہے، بلكہ اسے ترك كرنا ضرورى ہے، چاہے يہ بطور نذر ہو يا قسم كے طور پر؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے كسى چيز پر قسم اٹھائى اور پھر وہ اس كے علاوہ كوئى اور اس سے بہتر ديكھے تو وہ اس سے بہتر پر عمل كرے اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كر دے”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1650 ).

اور سوال كرنے والى نے اپنے نفس كے ساتھ جو عہد كيا تھا اس كا ذكر سوال ميں نہيں كيا تا كہ جواب محدود ہوتا، ليكن اس نے جو كچھ كيا ہے اس كا حكم اوپر جو كچھ تقسيم كے ساتھ بيان كيا گيا ہے اس سے معلوم كيا جا سكتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android