سوال : حج تمتع کرنے والے کو حج کیلئے الگ سے طواف اور سعی کرنا ہوگی یا عمرے کا طواف اور سعی کافی ہوگی؟
حج تمتع کرنے والے حاجی نے کتنے طواف اور سعی کرنی ہیں؟
سوال: 204991
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حج تمتع کرنے والے کیلئے دو طواف اور دو سعی کرنا لازمی ہے، طواف اور سعی عمرہ کیلئے اور اسی طرح طواف اور سعی حج کیلئے، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے جن میں امام مالک، اما م شافعی، اور امام احمد صحیح ترین روایت کے مطابق شامل ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا:
"حجۃ الوداع کے موقع پر مہاجرین ، انصار، اور امہات المؤمنین نے احرام باندھا تھا ہم بھی انہی کیساتھ تھے، چنانچہ جب ہم مکہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنے حج کے احرام کو عمرہ کے احرام میں تبدیل کر لو، لیکن جو قربانی ساتھ لایا ہے وہ نہ کرے) تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا مروہ کی سعی کی [عمرہ مکمل کرنے کے بعد ] ہم نے اپنی بیویوں سے ہمبستری بھی کی اور پھر عام کپڑے زیب تن کر لیے"، انہوں نے مزید کہا کہ: "جو شخص قربانی کا جانور لیکر آیا ہے اس کیلئے حلال ہونا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے پہنچ جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آٹھ ذو الحجہ کو حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا، چنانچہ جب ہم [مشاعر میں] مناسک سے فارغ ہو گئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی اس طرح ہمارا حج مکمل ہوا اور ہم نے حج کی قربانی بھی کی"
اس پورے اثر کو امام بخاری نے کتاب الحج باب: قول اللہ تعالی: ذلك لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام کے تحت ذکر کیا ہے۔
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بخاری میں ثابت شدہ اس حدیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے حج تمتع کیا تھا اور وہ اپنے عمرے سے حلال بھی ہوئے انہوں نے اپنے عمرے کیلئے طواف و سعی الگ کی اور اپنے حج کیلئے دوسری بات طواف سعی الگ سے کی، اور یہ اختلاف ختم کرنے کیلئے واضح ترین نص ہے" انتہی
" أضواء البيان " ( 5 / 178 )
اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو گیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تمتع کرنے والا شخص وقوف عرفہ کے بعد اپنے حج کیلئے الگ سے طواف اور سعی کریگا، چنانچہ اپنے عمرے کے طواف اور سعی پر اکتفاء نہیں کریگا، ہر اعتبار سے یہ حدیث قول فیصل ہے" انتہی
" أضواء البيان " ( 5 / 182 )
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ:
"عمرے کا احرام باندھنے والوں نے طواف کیا اور پھر احرام کھول دیا، اس کے بعد منی سے واپسی پر بھی انہوں نے طواف کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ اکٹھا [یعنی حج قران] کیا تھا، انہوں نے صرف ایک طواف [مراد سعی]ہی کیا"
بخاری: (1557) مسلم: (1211)
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ متفق علیہ واضح نص ہے، جس سے حج قران اور حج تمتع میں فرق معلوم ہوتا ہے، یعنی حج قران کرنے والا ایسا ہی کریگا جیسے حج مفرد کرنیوالا کرتا ہے، جبکہ حج تمتع کرنے والا عمرے کیلئے طواف کریگا اسی طرح حج کیلئے بھی طواف کریگا، چنانچہ اس حدیث کے بعد اس مسئلے میں کوئی تنازعہ باقی ہی نہیں رہتا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔
اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایک طواف سے مراد سعی ہے، یہ موقف نظری طور پر مضبوط ہے، اور ابن قیم نے اسی کو پسند کیا ، میرے نزدیک بھی یہی موقف ٹھوس ہے۔
ان تمام نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ قران اور حج تمتع میں فرق کرنے والوں کا موقف درست ہے، اور یہی جمہور اہل علم کی رائے ہے اور یہی ان شاء اللہ درست ہے۔" انتہی
" أضواء البيان " ( 5 / 185 )
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"حج تمتع کرنے والے پر دو سعی ہیں، ایک سعی عمرہ کی اور دوسری سعی حج کی"
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی ، شیخ عبد الله بن غدیان ۔
" فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 11 / 258 )
اسی موقف کو شیخ محمد بن ابراہیم نے اپنے فتاوی: (6/65) میں راجح قرار دیا ہے، اور شیخ ابن عثیمین نے "الشرح الممتع"(7/374) میں راجح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
"حج تمتع کرنیوالا حاجی: وہ شخص ہے جو حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ مکمل کر کے احرام کھول دے، اور پھر اسی سال حج کا احرام باندھے ، تو اسے مطلق طور پر سعی لازمی کرنا ہوگی، یعنی ایسے شخص کو دو سعی اور دو طواف کرنے ہونگے، ایک طواف عمرے کا اور دوسرا حج کا، اسی طرح ایک سعی عمرے کی اور دوسری سعی حج کی" انتہی
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب