اول:
کمرشل اور تعاونی انشورنس میں بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ تعاونی انشورنس میں اقساط کی شکل میں جمع ہونے والا سرمایہ انشورنس کمپنی کی ملکیت نہیں ہوتا، بلکہ خیراتی فنڈ ہوتا ہے جو صرف ان لوگوں پر خرچ کیا جاتا ہے جو مخصوص شرائط پر پورا اتریں، جبکہ کمرشل انشورنس میں انشورنس کمپنی ہی تمام حاملین رکنیت کی اقساط سے حاصل ہونے والے سرمائے کی مالک ہوتی ہے، یہ ساری رقم اس کمپنی کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے، اس سرمائے کے عوض کمپنی مخصوص لوگوں کا معتبر شرائط و ضوابط کی روشنی میں علاج کروانے کی پابند ہوتی ہے، تو دونوں صورتوں میں بہت زیادہ فرق ہے کہ:
پہلی صورت میں تعاون اور تکافل ہے، اور اس کی نظیر عہد نبوت میں ملتی ہے کہ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بلا شبہ قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2486) نے روایت کیا ہے، اور اس پر امام بخاری ؒ نے عنوان یہ قائم کیا ہے کہ: "باب ہے اس بارے میں کہ: کھانا، زاد راہ اور سامان سب کا جمع کر کے برابر تقسیم کرنے کے بیان میں ، اور اس بیان میں کہ اگر کوئی چیز ماپی اور تولی جا سکتی ہے اس کے باوجود اندازے یا مٹھی بھر بھر کے تقسیم کرنا، مسلمان نہد [سفر یا حضر میں کھانے پینے کی چیزیں جمع کر کرے سب میں برابر تقسیم کی جائیں۔ مترجم] کے بارے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ کوئی اس جمع شدہ چیز میں سے زیادہ کھائے تو کوئی تھوڑا کھائے۔۔۔"
جبکہ دوسری صورت واضح جوا اور قمار ہے، اور عالمی سطح کی تمام کی تمام فقہی اکادمیاں بالاجماع اس کی حرمت کی قائل ہیں۔
دوم:
جائز تعاونی ہیلتھ انشورنس اور جوے پر مبنی ناجائز ہیلتھ انشورنس کے درمیان تفریق کے جوہری اسباب ہیں، تو اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں ان تمام جوہری فروقات کو جاننا ضروری ہے۔
چنانچہ " المعايير الشرعية " (372-373) میں ہے کہ:
"تکافلی یا تعاونی انشورنس کے حلال ہونے اور کمرشل انشورنس کے حرام ہونے کی وجہ کچھ جوہری اسباب ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
الف: عمومی انشورنس میں معاہدہ در حقیقت مالی فوائد حاصل کرنے کا ہوتا ہے، یعنی انشورنس بذات خود مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے، چنانچہ اس میں مالی معاوضے کے اصول و ضوابط لاگو کیے جاتے ہیں جو اس میں غرر پیدا کرتے ہیں، اس لیے عمومی طور پر پائی جانے والی انشورنس کا حکم حرمت کا ہے، جبکہ تکافلی انشورنس در حقیقت تبرع اور چیریٹی پر مبنی معاہدہ ہوتا ہے جس میں غرر کا سوال ہی نہیں ہے۔
ب: اسلامی انشورنس میں کمپنی یا فنڈ کی نگرانی کرنے والی کمیٹی جیسے کہ سوال میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے کا کردار محض نمائندگی کا ہوتا ہے، جبکہ کمرشل انشورنس میں کمپنی بذات خود اپنے نام سے معاہدہ کرتی ہے۔
ج: کمرشل انشورنس میں کمپنی وصول ہونے والی تمام اقساط کی خود مالک بن جاتی ہے اور اس کے عوض میں انشورنس کی رقم مہیا کرتی ہے، جبکہ اسلامی انشورنس میں کمپنی اقساط کی مالک نہیں ہوتی بلکہ جمع ہونے والی اقساط انشورنس اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے اور اسی کی ملکیت ہوتی ہے۔ [اور یہ اکاؤنٹ اجتماعی طور پر تمام اراکین انشورنس کی مشترکہ ملکیت ہوتا ہے۔ مترجم]
د:اخراجات اور انشورنس کی رقم تقسیم کرنے کے بعد بچ جانے والا سرمایہ اراکین انشورنس کے مفاد میں اسی اکاؤنٹ میں پڑا رہتا ہے، یا اراکین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ کمرشل انشورنس میں ایسا نہیں ہوتا؛ کیونکہ کمرشل انشورنس میں تمام تر اقساط انشورنس کمپنی کی ملکیت میں آ جاتی ہیں اور بچ جانے والی رقم کو کمپنی کا نفع اور منافع شمار کیا جاتا ہے۔
ھ: اگر انشورنس کمپنی نے جمع ہونے والی رقوم کو کہیں انویسٹ کیا تو حاصل ہونے والا نفع اسلامی انشورنس میں اراکین کا ہو گا، جبکہ کمرشل انشورنس میں یہ انشورنس کمپنی کا ہو گا۔
و: اسلامی انشورنس کا مقصد سماج اور معاشرے کے افراد کو باہمی متعاون بنانا ہوتا ہے، اس کا یہ مقصد بالکل نہیں ہوتا کہ اس سے خود نفع کمائے، جبکہ کمرشل انشورنس تو بذات خود اس سے نفع کمانا چاہتی ہے۔
ز: اسلامی انشورنس میں کمپنی کا منافع ، سرمائے کو مضاربت کے تحت سرمایہ کاری میں لگانے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے ، اس میں انشورنس کمپنی مضارب ہوتی ہے اور انشورنس اکاؤنٹ سرمائے کا مالک ہوتا ہے۔
ح: اسلامی انشورنس میں رکنیت کا حامل شخص اور انشورنس کا حامل شخص دونوں ایک ہی ہوتے ہیں اگرچہ اعتبار کے لحاظ سے الگ الگ ہوتے ہیں، جبکہ کمرشل انشورنس میں دونوں الگ الگ ہوتے ہیں۔
ط: اسلامی انشورنس میں کمپنی اسلامی احکامات کی پابند ہوتی ہے، اسی طرح اپنی قانونی کمیٹی کے فتاوی کے مطابق چلتی ہے، جبکہ کمرشل انشورنس میں کسی قسم کے اسلامی احکامات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔۔۔" ختم شد
ہمیں یہ معلوم ہے کہ مذکورہ سارے کے سارے فرق سوال سے متعلقہ نہیں ہیں ؛ لیکن ہم نے یہ تمام اس لیے بیان کر دئیے ہیں تا کہ قارئین کو معلوم ہو کہ جائز تکافل یا تعاونی انشورنس اور کمرشل انشورنس میں فرق بہت زیادہ ہے، اسے سمجھنے کے بعد سرکاری سرپرستی میں چلنے والے سرکاری صحت ہیلتھ پراجیکٹ اسی پر قیاس کرے۔
سوم:
آپ کے ہیلتھ فنڈ کے بارے میں فتوی جاری کرنے اور آپ کے اس فنڈ کو تعاونی انشورنس کے اصول و ضوابط کے مطابق پرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ وہ تمام آفیشل دستاویزات ہمیں ارسال کریں جن کی روشنی میں اس فنڈ کو چلایا جا رہا ہے، اسی طرح ان معاہدوں کی کاپیاں بھی ارسال کریں جن پر رکنیت حاصل کرنے والے لوگ دستخط کرتے ہیں تا کہ ان کا اچھی طرح مطالعہ کر کے اس کا حکم بیان کیا جائے۔ تاہم پھر بھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ آپ کے اس فنڈ میں شرعی مخالفت نہیں ہو گی، لیکن ہم متعلقہ آفیشل دستاویزات دیکھے بغیر حتمی فیصلہ نہیں دے سکتے۔
چنانچہ " المعايير الشرعية " میں متعدد ایسی چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا تعاونی فنڈ کے اساسی قانون میں ہونا ضروری ہے، چنانچہ صفحہ نمبر: (364) میں ہے کہ:
"اسلامی انشورنس: کچھ ایسے لوگوں کا باہمی طور پر اتفاق کر لینا کہ اگر ہمیں ممکنہ خطرات کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا مقابلہ مل کر کریں گے، اور اس کے لیے تبرع کی نیت سے رکنیت کی فیس جمع کر کے ایک فنڈ قائم کریں اور اسے ایک اعتباری شخصیت تسلیم کریں، جو اس فنڈ کی نگرانی کرے اور اسی فنڈ سے جملہ مشترکین کے نقصانات کا متفقہ اصول و ضوابط کی روشنی میں ازالہ کرے، اس فنڈ کی نگرانی اراکین کی جانب سے منتخب کمیٹی کو دی جائے یا کوئی کمپنی اس فنڈ کی نگرانی معاوضہ لے کر کرے جو اس فنڈ میں جمع ہونے والی رقم کو شرعاً جائز جگہ پر انویسٹ بھی کرے اور جملہ اراکین کو حسب ضابطہ تعاون بھی فراہم کرے۔
جبکہ عمومی انشورنس میں معاہدہ بذات خود مالی معاوضے کا ہوتا ہے، اور انشورنس کے ذریعے کمائی کرنا مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اس پر تمام مالی معاوضوں کے احکامات لاگو کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں غرر پیدا ہوتا ہے، لہذا عمومی طور پر پائی جانے والی انشورنس کا حکم یہ ہے کہ یہ شرعی طور پر حرام ہے۔
دوسری طرف اسلامی انشورنس درج ذیل شرعی اصول و ضوابط پر قائم ہوتی ہے، اور ان شرعی اصولوں کو اسلامی انشورنس کمپنی کے دستور میں ذکر بھی کیا جاتا ہے کہ:
اول: عقدِ تبرع ہو، یعنی واضح کیا جائے کہ پالیسی ہولڈر یا رکنیت کا حامل شخص لازمی طور تبرعا رقم جمع کروائے گا، اور اگر جمع کروائی گئی رقم سے نفع حاصل ہو تو وہ بھی انشورنس اکاؤنٹ میں جمع ہو گا تا کہ متاثرین افراد کو نقصانات کے ازالے کے لیے رقم دی جا سکے، بلکہ کبھی ایسے بھی ممکن ہے کہ اگر نقصان زیادہ ہو جائے اور رقوم کم ہوں تو پالیسی ہولڈر شخص اضافی رقم مخصوص اصول و ضوابط کی روشنی میں جمع کروائے گا۔
دوم: جو کمپنی انشورنس فنڈ چلا رہی ہے اس کے دو الگ الگ اکاؤنٹس ہونے چاہئیں: ایک جس کا تعلق خود کمپنی اور اس کے حقوق اور واجبات سے ہو، اور دوسرا جس کا تعلق فنڈ اور پالیسی ہولڈرز کے حقوق اور واجبات سے ہو۔
سوم: انشورنس فنڈ چلانے والی کمپنی انشورنس کے معاملات دیکھنے کے لیے بطور نمائندہ کام کرے گی، اور فنڈ کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے بطور مضارب یا وکیل کام کرے گی۔
چہارم: انشورنس فنڈ اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی رقوم اور اس سے حاصل ہونے والا نفع شامل ہو گا، اور یہی اکاؤنٹ اپنی ذمہ داریاں [متاثرین تک انشورنس کی رقم کی ادائیگی] بھی ادا کرے گا۔
پنجم: سر پلس یا سالانہ بچ جانے والی رقم کو مزید مفید سرمایہ کاری میں لگانے کے لیے قواعد و ضوابط بھی ہونے چاہییں، ۔۔۔ انشورنس فنڈ چلانے والی کمپنی کو اس میں سے کچھ نہ دیا جائے۔
ششم: اگر اس فنڈ کو ختم کرنے کی بات ہو تو انشورنس فنڈ میں موجود تمام تر سرمایہ خیراتی کاموں میں صرف کر دیا جائے۔
ہفتم: انشورنس کے معاملات چلانے کے لیے پالیسی ہولڈر افراد کو ترجیح دی جائے۔
ہشتم: . کمپنی اپنی تمام سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اسلامی شریعت کے تمام احکام اور اصولوں کی پابندی کرنے کی پابند رہے، اور خاص طور پر کسی بھی ایسی چیز کا بیمہ نہیں کرے گی جو حرام ہو۔
نہم: ایک شرعی نگرانی کمیٹی مقرر کی جائے جس کے فتوے پر عمل کرنا کمپنی پر لازم ہو، اسی طرح مالی آڈٹ کے لیے بھی با اختیار کمیٹی تشکیل دی جائے۔" ختم شد
انشورنس فنڈز کے کام کو منظم کرنے والی دستاویزات میں مذکورہ تمام امور کو مد نظر رکھا جانا چاہیے، اور خصوصی طور پر ان لوگوں کی نگرانی کی جائے جو جمع شدہ فنڈز کو انشورنس اکاؤنٹ کے لیے نفع کمانے کی غرض سے سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں، لہذا ایسا قانون اور دستور ہونا چاہیے جو انشورنس کے سارے مراحل کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر استوار رکھے۔
واللہ اعلم