سوال: میرے والد صاحب بیرون ملک کام کرتے ہیں، اور ماہانہ مجھے پیسے ارسال کرتے ہیں، تو اس میں سے کچھ میں خرچ کر لیتا ہوں، اور کچھ بچت میں شامل لیتا ہوں، اس طرح کرتے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے، اور کچھ رقم ابھی باقی ہے، تو کیا اس میں زکاۃ ہوگی؟
اسکے والد ہر ماہ اسکے لئے کچھ رقم بھیجتے ہیں، تو کیا اس مال میں بھی کوئی زکاۃ ہے؟
سوال: 205920
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپکے والد صاحب کی طرف سے بھیجا جانے والی رقوم اگر آپکو ملکیتی طور پر دی جارہی ہے -اور سوال سے بھی یہی نظر آرہا ہے – یعنی: آپ ان کو جہاں مرضی خرچ کرسکتے ہو، تو اس مال میں زکاۃ واجب ہے، بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے۔
اور نقدی رقم کیلئے نصاب یہ ہے کہ رقم 85 گرام سونا، یا 595 گرام چاندی کے برابر ہوجائے۔
اس میں واجب ہونے والی مقدار 2.5٪ ہے، اور سونا چاندی میں سے اسی کو نصاب بنیاد بنایا جائے گا، جس میں فقراء کیلئے زیادہ فائدہ ہو۔
مزید معلومات کیلئے سوال نمبر: (64) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اور اگر آپکو یہ رقوم اس لئے دی گئی ہیں کہ جتنی ضرورت ہو اس میں سے خرچ کرو، اور باقی آپکے پاس امانت ہے، تو اس میں سے بچنے والے باقیماندہ مال کو آپکے والد کے پاس مال کیساتھ ضم کیا جائے گا، اور اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں زکاۃ اسی طرح واجب ہوگی جیسے پہلے گزر چکا ہے، اور اس صورت میں آپکے والد زکاۃ دینے کے ذمہ دار ہونگے۔
اور یہ چیز شواہد و قرائن سے پہچانی جاسکتی ہے، مثلا آپکے والد خرچے کی تفصیلات وغیرہ اور باقیماندہ رقم کے بارے میں سوال کریں، یا انہیں آپکو خرچے کیلئے جتنی ضرورت ہے اسکے بارے میں اندازہ ہے، اس سے زائد رقم کے بارے میں وہ آپ سے پوچھ گچھ کرتے رہتے ہیں[تو یہ آپکی رقم نہیں ہے بلکہ والد صاحب کی امانت ہے]۔
اور اگر آپکے والد صاحب آپکو رقم دینے کے بعد باقیماندہ ، یا خرچ شدہ کے بارےمیں نہیں پوچھتے، تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپکو بھیجی جانے والی ساری رقم آپکی ملکیت میں ہے، تو اس پر پہلے بیان شدہ انداز سے زکاۃ واجب ہوگی۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات