میرے خاوند کا بھائی ہروقت ہمارے گھرمیں ہی رہتا ہے یا پھر خاوند سے ٹیلی فون پر بات چيت کرتا یا اسےاپنے ساتھ گھر سے باہرلے جاتا ہے ، میرے خاوندکے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا ، اوریہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہےکہ میں اب اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی ، اورمجھے محسوس ہوتاہے کہ وہ میرے خاوند کومیری اوراولاد کی ذمہ داری سے دور ہٹا رہا ہے ۔
ہم اپنی اولاد کے ساتھ اچھی بھلی زندگی بسر کر رہے ہیں اور میں یہ چاہتی ہوں کہ اپنی اولاد کے لیے جوچاہوں کروں ، لیکن مجھے اسی طرح یہ بھی پسند ہے کہ میرا خاوند ہمارے ساتھ ہو ، لیکن اس کا بھائي ہماری لیے اس کی فرصت ہی نہیں دیتا ، اورجب ہم کہیں جائيں تووہ ٹیلی فون پر اسے تلاش کرلیتا ہے ۔
اسی وجہ سے میرے اورخاوند کے مابین جھگڑا بھی ہوچکا ہے اس کے خیال میں میرے لیے کسی بھی کام میں نہ کرنا آسان ہے کیونکہ میں اسے معاف کردیتی اور کچھ نہیں کہوں گی لیکن وہ اپنے بھائي کے سامنے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی بنا پر وہ اس سے ایک طویل عرصہ تک ناراض ہوجائے گا ۔
خاوند کے لیے واجب اورضروری تو یہ ہے کہ اگروہ یہ چاہتا ہے کہ ہماری ازدواجی زندگی اچھی رہے تو وہ ہمارے ساتھ زيادہ تعلقات رکھے نہ کہ اپنے بھائي کے ساتھ ، ایک مسلمان عورت ہونے کے ناطے کیا میں اس سے اپنے حقوق سے بھی زيادہ کا مطالبہ کررہی ہوں ؟ یا کہ اسے اپنے بھائي کی سوچ ہم سے بھی پہلے آنی چاہیے ؟
دیور کی وجہ سے عائلی مشکلات
سوال: 20607
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
اول :
خاوند کوعلم ہونا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر اس کی الاد کی تعلیم وتربیت اوران کی ضروریات کا خیال رکھنا واجب کیا ہے ، اوراس پر یہ بھی واجب کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن معاشرت اختیار کرتاہوا اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بود وباش رکھے ، ان سب مسائل میں کسی بھی قسم کی کمی کوتاہی پر اللہ تعالی روزقیامت اس سے باز پرس کرے گا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اے ایمان والو! اپنے آپ اوراپنے اہل وعیال کوجہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں ، اس پر سخت قسم کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ تعالی کے کسی بھی حکم بھی نافرمانی نہیں کرتے اوروہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جائے التحریم ( 6 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی کا ارشاد ہے :
اوران عورتوں کے ساتھ اچھے اور احسن انداز میں بود وباش اختیار کرو النساء ( 19 ) ۔
دوم :
خاوند پر ضروری ہے کہ وہ ایسی کسی بھی چيز کواپنی زندگي میں داخل نہ ہونے دے جو اس کے اور اہل وعیال کی ضروریات میں دخل انداز ثابت ہو مثلا کوئي ایسا مسلسل عمل یا کوئي ایسی دوستی جواس کا وقت ضائع کرے یا پھر کوئي قریبی رشتہ دار جواس کا وقت بھی لے اوراس کے گھریلو معاملات میں بھی دخل اندازي کرے ۔
مسلمان اس دور میں تواتنا وقت بھی نہیں نکال سکتا کہ وہ اللہ تعالی کے واجب کردہ اعمال کوہی بجا لائے ، توپھر اس پر یہ کس طرح آسان ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس وقت کوجو ان واجبات کی ادائيگی کے لیے تھا کسی دوسرے کے ساتھ بلاحساب ہی ضائع کرتا پھرے ؟
سوم :
بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند اوراس کے گھروالوں میں تفریق نہ ڈالے ، اور یہ بھی اس کے لائق نہيں کہ وہ ان کے بار بار آنے یا پھر خاوند سے ملنے کے لیے آنے پر جھگڑا کھڑا کردے ، لیکن اگرخاوند کے واجبات پریہ اثر انداز ہوتو پھر ہوسکتا ہے ۔
اوروالد کوبھی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد پر کسی کو بھی ترجیح نہ دے نہ تو اپنے بھائي اور نہ ہی اورکسی قریبی کو ، تواس لیے خاندانی تعلقات میں خاوند اوراس کے بھائي اور نہ ہی اولاد اوران کے چچاؤں کے درمیان ایک خلا پیدا کرنا صحیح نہیں ، اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات اوررحم و نرمی پر بہت ہی زيادہ اثر پڑے گا ۔
چہارم :
ہم فاضلہ بہن کونصیحت کرتے ہيں کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ نرم رویہ رکھے ، اوربھائي کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اس کے سامنے جھگڑا نہ کرے ، اوراپنی اولاد کے ذھنوں میں بھی اس کے بارہ میں بغض اورناپسندیدگي پیدا نہ کرے ۔
اورجب خاوند میں کوئي نقص دیکھیں کہ وہ شرعی واجبات میں کمی و کوتاہی سے کام لے رہا ہے تواسے اچھے اوراحسن انداز میں سمجھائے اوراس کا انکار کرے اوراس میں کسی بھی قسم کی شدت اورسختی نہيں ہونی چاہیے ، اوراگر ضرورت پیش آئے تواس میں بھی اشاروں کنایوں سے بات کریں نا کہ بالکل ہی صراحت کےساتھ ۔
ہم نے ان حالات میں دیکھا ہے کہ جوایسے حالات سے دوچارہوتے ہيں ،کہ خاوند کے گھروالے اوروہ خود کسی ضرورت کی بنا پر ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ، تواس بنا پر ہم کہيں گے کہ جب خاوند اپنی بیوی سے اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھے اوربہتر تعلقات دیکھتا ہے تووہ اپنی بیوی سے بھی اچھے اوراحسن معاملات کرے گا ۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب