مسلمان عورت کے سابقہ سسر کے ساتھ کس طرح کے تعلقات ہوں گے اور کیا اس کے آنے پر اس سے پردہ کرے کرنا واجب ہوگا ؟
کیا سابقہ سسر محرم ہے
سوال: 20750
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عورت کا سسر اس کے لیے محرم ہوگا چاہے خاوند نے اسے طلاق ہی کیوں نہ دے دی ہو اس لیے کہ اللہ تعالی نے حرام کردہ عورتوں کے بیان میں فرمایا ہے :
اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں النساء ( 23 ) ۔
تویہاں پر حرمت صرف عقد نکاح سے ہی ثابت ہوجاتی ہے ، اس لیے اگر کسی مرد نے عورت سے عقد نکاح کرلیا تو خاوند کا والد ( یعنی عورت کا سسر ) اپنی بہو کا محرم بن جائےگا ، چاہے خاوند نے اس سے ہم بستری بھی نہ کی ہو ۔
علماء کرام اسے محرمات بالمصاہرۃ ( یعنی نکاح کی وجہ سے حرام کردہ ) کا نام دیتے ہیں ۔
محرمات بالمصاہرۃ کی چار قسمیں ہیں :
1- جس سے والد نے نکاح کرلیا ہو ( یعنی والد کی بیوی اوراسی طرح دادا کی بیویاں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اوران عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو النساء ( 22 ) ۔
2 – بیوی کی والدہ اوراس کی نانیاں ( یعنی ساس اورساس کی نانیاں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورتمہاری بیویوں کی مائيں ۔۔۔ النساء ( 23 ) ۔
3 – ربیبۃ : ( یعنی بیوی کی پہلے خاوند سے بچی ) ربیبہ اس وقت حرام ہوگی جب مرد نے اس کی والدہ سے دخول کرلیا ہو ، لیکن اگراس کی ماں سے صرف ابھی عقد نکاح ہی کیا ہو اوردخول نہیں کیا تو اس صورت میں اس کی بیٹی یعنی ربیبہ حرام نہیں ہوگي ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورتمہاری پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، اوراگر تم نے ان سے جماع نہیں کیا تو تم پر کوئي گناہ نہيں النساء ( 23 ) ۔
4 – بیٹے کی بیوی ( یعنی بہو ) اوراسی طرح پوتوں کی بیویاں ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں النساء ( 23 ) ۔
انتھی ۔ دیکھیں جامع احکام النساء للعدوی ( 5 / 302 ) ۔
شیخ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
فرمان باری تعالی ہے :
اورتمہاری پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، اوراگر تم نے ان سے جماع نہیں کیا توتم پر کوئي گناہ نہيں اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں النساء ( 23 ) ۔
تحریم مصاہرہ میں یہ تین قسمیں ہیں ( یعنی شادی کی وجہ سے یہ تین قسم کی حرمت ہے ) تواللہ تعالی کا فرمان تمہاری بیویوں کی مائيں یعنی مرد پر اس کی ساس جوکہ بیوی کی والدہ ہے اوراس کی نانی چاہے وہ اس سے بھی اوپروالی ہو( یعنی نانی کی ماں اوراس کی نانی وغیرہ ۔۔ )مرد پر حرام ہے ، چاہے وہ بیوی کی ماں کی جانب سے ہوں یا پھر اس کی والد کی جانب سے یہ صرف عقد نکاح کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں ۔
جب کوئي مرد کسی عورت سے عقد نکاح کرے تواس پراس کی بیوی کی والدہ ( یعنی ساس ) اس کی محرم ہوگی چاہے اس نے بیوی سے جماع بھی نہ کیا ہو ، – یعنی اگرچہ بیٹی سے ہم بستری نہ بھی کی ہو تو اس پر اس کی ماں حرام ہوجاتی ہے – فرض کریں اگر بیٹی فوت ہوجاتی ہے یا اسے طلاق دے دی جائے تو وہ اس کی والدہ ( یعنی اپنی ساس ) کا محرم ہوگا ۔
اوراگر فرض کریں کہ جس لڑکی سے مرد نے نکاح کیا ہو اوراس سے دخول نہیں ہوا تو اس لڑکی کی ماں اپنے داماد کے لیے محرم شمار ہوگی وہ اس کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کرسکتی ہے اوراس کےساتھ سفر کرسکتی اور خلوت بھی کرسکتی ہے اس میں کوئي حرج نہیں ۔
اس لیے کہ بیوی کی والدہ ( ساس ) اوراس کی نانی صرف عقد نکاح سے ہی حرام ہوجاتی ہیں اس کی دلیل اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کا عموم ہے :
اورتمہاری بیویوں کی مائيں النساء ( 23 ) ۔
اورعورت صرف عقد نکاح کی بنا پر مرد کی بیوی بن جاتی ہے ۔۔
اوراللہ تعالی کا فرمان :
اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں
اس سے مراد بیٹے کی بیوی ( جسے بہو کہا جاتا ہے ) چاہے وہ اس سے بھی نيچے کی نسل میں ہو ( یعنی پوتا اورپوتے کا بیٹا وغیرہ ۔۔۔ الخ ) وہ اس کے والد پر صرف عقد نکاح سے ہی حرام ہوجائے گی اوراسی طرح دادا پر پوتے کی بیوی بھی صرف عقد نکاح سے حرام ہوجائے گی ، اس کی دلیل اللہ تعالی کے فرمان کا عموم ہے :
اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں ۔
اورعورت صرف عقد نکاح کے ساتھ ہی خاوند کی بیوی بن جاتی ہے ۔ انتھی ۔ دیکھیں کتاب الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 591 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب