مجھے علم ہے كہ مجھ سے پہلے بھى يہ سوال كيا جا چكا ہے، ليكن اس كے متعلق ميں ابھى تك حيرانى ہے كہ: اگر يہ معلوم نہ ہو كہ ذبح كے وقت وقت بسم اللہ پڑھى گئى ہے يا نہيں تو كيا ہوٹلوں ميں وہ گوشت كھانا جائز ہے ؟
مشكوك ہوٹلوں كا گوشت كھانا
سوال: 20805
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو ان ہوٹلوں ميں جانور ذبح كرنے كے ذمہ دار مسلمان يا اہل كتاب ( اور وہ يہودى اور عيسائى ہيں ) ہوں يا پھر ہوٹل والے خود مسلمان يا اہل كتاب سے تعلق ركھتے ہوں اور ذبح بھى خود كرتے ہوں تو يہ گوشت كھانا جائز ہے چاہے ہم اس بات سے جاہل ہى ہوں كہ آيا انہوں نے ذبح كرتے وقت بسم اللہ پڑھى ہے يا نہيں، اس ليے كہ اصل ميں ان كا ذبح كردہ گوشت حلال ہے، اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل روايت ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں:
” كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كرنے لگے: كچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہيں اور ہميں يہ علم نہيں كہ آيا اس پر بسم اللہ پڑھى گئى ہے يا نہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بسم اللہ پڑھ كا كھا لو ”
ميں نے عرض كيا: وہ كفر چھوڑ كر نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، يعنى اب تك وہ اسلام ميں نئے ہيں اور انہيں علم نہيں كيا آيا وہ ( ذبح كرتے وقت ) بسم اللہ پڑھتے يا نہيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بسم اللہ پڑھ كر كھا ليا كرو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2057 ).
اور اگر مسلمان اور اہل كتاب كے علاوہ كوئى اور شخص مثلا ملحد يا ہندو ذبح كرتا ہو تو اسے كھانا جائز نہيں ہے.
اور يہ چيز آپ كو علم ميں ركھنى چاہيے كہ مسلمان اور اہل كتاب كا ذبح كردہ بھى اس وقت حلال ہے جب وہ شرعى طريقہ سے ذبح كرے يا ہميں علم نہ ہو كہ كس طرح ذبح كيا گيا ہے ( ليكن جس كے متعلق ہميں علم ہو جائے كہ وہ غير شرعى طريقہ كے مطابق ذبح كيا گيا ہے مثلا گلا گھونٹ كر، يا بےہوش كر كےتو يہ مردار ہے اور اس كا كھانا حرام ہے چاہے اسے ذبح كرنے والا مسلمان ہو يا كافر، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).
الشيخ ابن باز رحمہ اللہ
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 414 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ ذبح كردہ جانور تين حالات سے خالى نہيں:
پہلى حالت:
ہميں علم ہو كہ اسے صحيح طريقہ سے ذبح كيا گيا ہے تو يہ ذبيحہ حلال ہے.
دوسرى حالت:
ہميں علم ہو كہ يہ غير صحيح طريقہ سے ذبح كيا گيا ہے، تو يہ ذبيحہ حرام ہے.
تيسرى حالت:
ہميں اس ميں شك ہو، اور علم نہ ہو كہ آيا اسے صحيح طريقہ سے ذبح كيا گيا ہے يا نہيں.
تو اس حالت ميں حكم يہ ہے كہ: يہ ذبيحہ حلال ہے اور ہم پر يہ ضرورى نہيں كہ ہم اس كے متعلق سوال كرتے پھريں يا اس كى جستجو كريں كہ كيسے ذبح كيا گيا ہے، اور آيا اس پر بسم اللہ پڑھى گئى ہے يا نہيں، بلكہ سنت نبويہ كا ظاہر اس پر دلالت كرتا ہے كہ افضل يہى ہےكہ اس كے متعلق سوال نہ كيا جائے، اور اس كى جستجو نہ كى جائے، اسى ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا:
ہم نہيں جانتے كہ آيا انہوں نے بسم اللہ پڑھى ہے يا نہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ تم ان سے سوال كرو، آيا انہوں نے بسم اللہ پڑھى ہے يا نہيں، بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم خود بسم اللہ پڑھو اور كھا لو “
اور يہ بسم اللہ جس كا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے يہ ذبح كے ليے نہيں، كيونكہ ذبح تو ہو چكا ہے اور اس سے فراغت بھى پہلے سے ہو چكى ہے، ليكن يہ بسم اللہ كھانے سے پہلے پڑھى جانےوالى ہے، كيونكہ كھانے والے كے ليے كھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے.
بلكہ راجح قول يہ ہے كہ: كھانے كھاتے وقت بسم اللہ پڑھنى واجب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا حكم ديا ہے، اور اس ليے بھى كہ اگر انسان بسم اللہ نہ پڑھے تو شيطان اس كے كھانے اور پينے ميں شامل ہو جاتا ہے.
اور جب انسان ورع اور تقوى كرتے ہوئے اس طرح كے گوشت كو كھانا ترك كردے تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور اگر كھا بھى لے تو پھر بھى كوئى حرج نہيں ” اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 415 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب