ميں ايك انڈونيشى مسلمان ہوں، اور مشرق وسطى ميں كام كرنے والى ملازمات كے بارہ فتوى چاہتا ہوں:
كيا گھروں ميں كام كرنے والى عورتيں لونڈياں شمار ہوتى ہيں؟
بہت زيادہ اہم ہے كہ ہم كام كرنے والى عورتوں كى حالت جانيں، كيونكہ يہاں پر كفار اس موضوع كو اسلام كى صورت مسخ كرنے كے ليے استعمال كر رہے ہيں اور اسے بہانہ بناتے ہيں، ميرى گزارش ہے كہ آپ بعض علماء كرام اور كچھ تنطيموں اور كميٹيوں كے فتاوى جات ارسال كريں ؟
گھروں ميں عورتوں كا خادمات رہنا اور كيا يہ لونڈياں ہيں؟!
سوال: 20869
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
گھروں ميں كام كاج كرنے والے خادم لونڈيوں اور غلاموں كا حكم نہيں ليتے، بلكہ ان كا حكم پرائيويٹ مزدور اور ملازم كا ہے، جو ايك ملازم كى طرح صرف اجرت پر حاصل كرنے والے كے پاس كام كرنے كے ليے ہيں.
خادم عورتوں اور ان كا دوسرے ملكوں سے لائے جانے كے متعلق كلام گزر چكى ہے، اور ان ممانع كا بھى ذكر كيا جا چكا ہے جن ميں ان گھروں والے پڑتے ہيں جن ميں يہ عورتيں كام كرتى ہيں، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 26282 ) كے جواب ديكھى جا سكتى ہے.
دوم:
بعض گھروں والوں كى طرف سے جو ظلم و ستم ان خادموں پر كيا جاتا ہے، يہ ايسا امر ہے جسے اسلام جائز نہيں سمجھتا اور اسے كا اقرار نہيں كرتا، بلكہ اس سے بچنے كا كہتا ہے، اور نہ ہى يہ جائز ہے كہ اسے اسلام پر طعن و تشنيع كا وسيلہ اور سبب بنايا جائے، اور اس سے اسلام كى صورت كو خراب كر كے پيش كيا جائے، كيونكہ يہ تو بعض مسلمانوں كى غلطياں ہيں، اور اسلام نے تو خود اس كو حرام قرار ديا ہے.
بخارى اور مسلم نے ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے ايك شخص كے ساتھ برى كلام كرتے ہوئے اسے اس كى ماں كى عار دلائى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اے ابو ذر كيا تم اسے اس كى ماں كى عار دلا رہے ہو؟ تم تو ايسے شخص ہو جس ميں جاہليت ہے! تمہارے بھائى تمہارے خادم ہيں، اللہ تعالى نے انہيں تمہارے ماتحت كر ديا ہے، لہذا جس كا بھائى اس كے ماتحت ہو اسے چاہيے كہ وہ اسے وہى كھلائے جو خود كھاتا ہے، اور اسے وہى پہنائے جو خود پہنتا ہے، اور تم انہيں اس كام كى تكليف نہ دو جو ان كے بس سے باہر ہو، اور اگر انہيں اس كا مكلف كرو تو ان كى مدد كرو”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 30 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1661 ).
لھذا جب دين اسلام كا غلاموں كے ساتھ يہ سلوك اور انصاف ہے جو انسان كى ملكيت ہيں، تو پھر ان خادموں اور ملازموں كے ساتھ ان كى حالت كيا ہو گى جن كے وہ مالك بھى نہيں، بلكہ انہيں صرف كام كے ليے مزدورى پر ركھا گيا ہے؟ !
سوم:
ان ملازم عورتوں كے ساتھ خلوط كرنا، اور انہيں ديكھنا جائز نہيں ہے، كيونكہ يہ مردوں كے ليےاجنبى ہيں، اور ان كے اہل و عيال اور محرمات ميں سے نہيں.
اور اسى طرح مرد ملازم اور خادم بھى گھر والوں كے ليے اجنبى ہيں، اس ليے گھر كى كسى عورت كے ليے ان مردوں كےسامنے ہونا، اور ان كے ساتھ خلوط كرنا جائز نہيں ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ڈرائيوروں اور گھريلو خادموں كےساتھ ميل جول اور ان كے سامنے آنے كا حكم كيا ہے، اوركيا يہ اجنبى كے حكم ميں آتے ہيں؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرى والدہ مجھ سے مطالبہ كرتى ہے كہ ميں خادموں كے سامنے آؤں اور اپنے سر پر دوپٹہ ركھو، تو كيا ہمارے دين حنيف ميں يہ جائز ہے، جو ہميں اللہ تعالى كى معصيت نا كرنے كاحكم ديتا ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
ڈرائيور اور خادم كا حكم بھى باقى اجنبى مردوں جيسا ہى ہے، اگر يہ محرم نہ ہوں تو ان سے پردہ كرنا واجب اور ضرورى ہے، اور ان كے سامنے بے پردہ ہو كر آنا اور خلوط كرنا جائز نہيں ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كوئى مرد بھى كسى عورت كے ساتھ خلوط نہ كرے كيونكہ ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہوتا ہے”
اور پردہ كے عمومى دلائل كے وجوب اور غير محرموں كے سامنے بے پردگى كى حرمت كے دلائل كى بنا پر بھى جائز نہيں، اور اسى اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں والدہ يا كسى اور كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا جائز نہيں ہے.
ديكھيں: التبرج و خطرہ تاليف شيخ ابن باز
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب