كيا كسى شركيہ افكار كے حامل اور بدعتى امام كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے ؟
كفريہ اور غير كفريہ بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا
سوال: 20885
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بدعت يا تو كفريہ ہوتى ہے جيسا كہ جھميہ اور شيعہ اور رافضيوں، اور حلولى اور وحدۃ الوجوديوں كى بدعت ہے، ان كى اپنى نماز بھى صحيح نہيں، اور ان كے پيچھے نماز ادا كرنا بھى صحيح نہيں، اور كسى كے ليے بھى ان كے پيچھے نماز ادا كرنى حلال نہيں.
يا پھر بدعت غير كفريہ ہوتى ہے، مثلا نيت كے الفاظ كى زبان سے ادائيگى، اور اجتماعى ذكر وغيرہ جو كہ صوفيوں كا طريقہ ہے،ان كى اپنى نماز بھى صحيح ہے، اور ان كے پيچھے نماز ادا كرنا بھى صحيح ہے.
مسلمان پر واجب ہے كہ وہ انہيں يہ بدعات ترك كرنے كى نصيحت كرے، اگر وہ مان جائيں تو يہى مطلوب ہے، وگرنہ اس نے اپنا فرض پورا كر ديا اور اس حالت ميں افضل يہ ہے كہ كوئى ايسا امام تلاش كيا جائے جو سنت نبوى كى پيروى كرنے پر حريص ہو.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
وہ بدعات جن كى بنا پر آدمى اہل اھواء اور خواہشات ميں شامل ہوتا ہے وہ جو اہل علم كے ہاں كتاب و سنت كى مخالفت ميں مشہور ہے، مثلا خوارج، اور رافضيوں شيعوں، اور قدريہ، مرجئہ وغيرہ كى بدعات ہيں.
عبد اللہ بن مبارك، اور يوسف بن اسباط رحمہم اللہ كا كہنا ہے:
تہتر فوقوں كى اصل چار ہے اور وہ يہ ہيں: خارجى، رافضى، قدريہ، اور مرجئۃ.
ابن مبارك رحمہ اللہ تعالى كو كہا گيا: تو پھر جھميۃ ؟
ان كا جواب تھا: جھميۃ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى امت ميں سے نہيں ہيں.
جھميۃ فرقہ صفات كى نفى كرتا ہے، جو يہ كہتے ہيں كہ: قرآن مخلوق ہے اور آخرت ميں اللہ تعالى كو نہيں ديكھا جائيگا، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو معراج نہيں ہوئى، وہ اپنے رب كى طرف اوپر نہيں چڑھے، اور نہ ہى اللہ كو علم ہے نہ قدرت، اور نہ ہى حياۃ يعنى زندگى وغيرہ ذالك,
اسى طرح معتزلہ اور متفلسفۃ اور ان كے متبعين بھى كہتے ہيں، عبد الرحمن بن مھدى كا كہنا ہے: ان دونوں قسموں جھميۃ اور رافضہ سے بچ كر رہو.
يہ دونوں بدعتيوں ميں سب سے برے اور شرير ہيں، اور انہى سے قرامطہ الباطنيۃ داخل ہوئے، جيسا كہ نصيريہ اور اسماعيلى فرقہ ہے، اور ان كے ساتھ اتحاديۃ متصل ہيں، كيونكہ يہ سب فرعونى گروہ سے تعلق ركھتے ہيں.
اور اس دور ميں رافضى رفض كى بنا پر جھمى قدرى ہيں، كيونكہ انہوں نے رفض كے ساتھ معتزلہ كا مذہب بھى ضم كر ليا ہے، پھر وہ اسماعيلى، اور دوسرے زنديقوں اور وحدۃ الوجود وغيرہ كے مذہب كى طرف جا نكلتے ہيں. واللہ و رسول اعلم.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 35 / 414 – 415 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
بدعتيوں كے پيچھے نماز ادا كرنے كے متعلق يہ ہے كہ اگر تو ان كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا، اور لغير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا اور ان كا كمال علم اور غيب يا كائنات ميں اثر انداز ہونے كے متعلق اپنے مشائخ اور بزرگوں كے متعلق وہ اعتقاد ركھنا جو اللہ تعالى كے علاوہ كسى كے بارہ ميں نہيں ركھا جا سكتا، تو ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں.
اور اگر ان كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ماثور ذكر كرنا، ليكن يہ ذكر اجتماعى اور جھوم جھوم كر كيا جائے، تو ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے، ليكن امام كو كسى غير بدعتى امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے؛ تا كہ يہ اس كے اجروثواب ميں زيادتى اور برائى اور منكر سے دورى كا باعث ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العملميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب