آدم علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے درمیان کتنے سال کا وقفہ ہے ؟
آدم علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کتنے سال کا وقفہ ہے
سوال: 20907
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شریعت اسلامیہ نے اس فترہ کی کوئ تحدید نہیں کی کہ آدم اورمحمد علیہما السلام کے درمیان کتنا رقفہ تھا بلکہ یہ بھی پتہ نہیں کہ آدم علیہ السلام کتنی مدت زندہ رہے اوران کی عمر کتنی تھی ۔
لیکن بعض احادیث اورمختلف اثار کرجمع کرنے سے مدت کے اندازے تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن یہ مکمل مدت نہیں بلکہ اس سےکچھ مدت کا اندازہ لگ سکتا ہے ، پھریہ احادیث اوراثار کچھ توصحیح ہیں اور کچھ میں اختلاف ہے ، اور کچھ مدت بچتی ہے جس کی تحدید کے بارہ میں کوئ اثاروارد نہیں ۔
جس میں صحیح دلائل وارد ہيں وہ یہ ہیں :
1 – نوح علیہ السلام کی تبلیغ کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان کہ انہوں نے کتنی مدت تبلیغ کی ۔
اس کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
تووہ ان میں ہزار سے پچاس برس کم ٹھرے یعنی ساڑھے نوسوبرس ۔
2 – عیسی اورہمارے نبی محمد علیہما السلام کے درمیان مدت کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری میں سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ سوبرس کی مدت ہے ۔
اورجس مدت کے بارہ میں ایسی احادیث وارد ہيں جن کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے :
3 – آدم اورنوح علیہم السلام کے درمیان مدت :
ابوامامہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آدم علیہ السلام نبی تھے ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں وہ نبی مکلم تھے ، وہ شخص کہنے لگا ان کے اورنوح علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ توانہوں نے فرمایا دس صدیاں ۔
اسے ابن حبان نے صحیح ابن حبان ( 14 / 69 ) اورامام حاکم نے مستدرک حاکم ( 2 / 262 ) میں روایت کیا ہے اورامام حاکم نے اسے صحیح اورمسلم کی شرط پرکہا ہے ، اور امام ذھبی نے بھی اس کی موافقت کی ہے ، اورابن کثیررحمہ اللہ تعالی نے البدايۃ والنھايۃ ( 1 / 94 ) میں کہا ہے کہ یہ مسلم کی شرط پرہے اورانہوں نے روایت نہیں کیا ۔
4 – نوح اورابراھیم علیہما السلام کی درمیانی مدت :
اس کی دلیل ابوامامۃ ہی کی حدیث ہے جس میں ہے کہ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ نوح اورابراھیم علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہزاربرس ۔
اسے امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے مستدرک ( 2 / 288 ) میں نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ مسلم کی شرط پرہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا ، اورامام طبرانی نے معجم الکبیر( 8 / 118 ) میں روایت کیا ہے ، اس حدیث کے بعض راویوں پرضعیف ہونے کے بارہ میں کلام کی گئ ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے شواھد کی بنا پراسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اوروہ جس میں بعض اثار وارد ہوۓ ہیں :
5 – موسی اورعیسی علیہما السلام کی درمیانی مدت کا وقفہ :
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اس مدت میں اختلاف ہے ، محمد بن سعد نے اپنی کتاب " الطبقات " میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کیا ہے کہ موسی بن عمران اورعیسی بن مریم علیہما السلام کےدرمیان ایک ہزار سات سوسال کی مدت ہے لیکن ان کے درمیان کوئ وقفہ نہیں بلکہ ان دونوں کی درمیانی مدت میں بنی اسرائیل میں ایک ہزار نبی بھیجے گۓ یہ ان کے علاوہ ہیں ہیں جودوسروں میں بھیجے گۓ ، اورعیسی اورنبی علیہما السلام کی پیدائش کےدرمیان پانچ سوننانوے بر س کی مدت ہے ۔ تفسری قرطبی (6/121) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اہل نقل کا اس پراتفاق ہے کہ یھودیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی درمیانی مدت دوہزاربرس سے بھی زیادہ تھی اورنصاری کی مدت اس سے چھ سوبرس ۔ فتح الباری ( 4 / 449 )۔
تومندرجہ بالاآیات واحادیث اوراثار واقوال کودیکھتے ہوۓ جو صحیح ہواسے ہم معین مدت کی تحدید میں قبول کریں گے ۔
لیکن آدم اورمحمد علیھما السلام کی درمیانی مدت کی اجمالی طوپر تحدید بالجزم اور یقینی طور پرکرنا وہ اس میں اضافہ ہوگا جوکچھ اوپربیان ہوچکا ہے وہ کچھ امور پر موقوف ہے جس میں کچھ یہ ہیں :
– قرن کی تحدیدمیں علماء کرام کا اختلاف کہ آیا وہ سوبرس ہوتے ہیں کہ کہ ایک نسل پرمحیط ہے ، اگر تویہ صحیح ہوکہ اس سے مراد نسل ہے تواس وقت کے لوگوں کی عمرسے یہ ثابت ہے کہ یہ قرن نوح علیہ السلام کی عمرکا ایک جزء ہے جوکہ انہوں نے دعوت الی اللہ میں بسرکی اورہمیں اس کا توعلم نہیں کہ اس نسل کی متوسط عمریں کتنی ہوتی تھیں ۔
– ابراھیم اورموسی علیہما السلام کی درمیانی مدت کی سالوں مین تحدید کے متعلق کسی نص کا وارد نہ ہونا ۔
اورباقی یہ ہے کہ ان جیسے امورمیں بالجزم کہنا اوران جیسے امورمیں بحث کرنا کوئ ایسا کام نہیں کہ جس سے اللہ تعالی کی عبادت ہوتی ہواور اللہ تعالی نے ہمیں اس کے کرنے کا حکم دیا ہے اورنہ ہی اس پرعمل کرنا ضروری ہے بلکہ ہمیں اس کے بارہ میں اللہ تعالی کا یہ فرمان کافی ہے :
اورعادیوں اورثمودیوں اورکنویں والوں کواوران کے درمیان کی بہت سی امتوں کو( ہلاک کردیا) الفرقان ( 38 ) ۔
توانسان پریہ ضروری ہے کہ وہ ان انبیاء ورسل کی اقتدا اورپیروی کرے اوران کے طریقے پر چلے کیونکہ ان کے اور ان کی سیرت کی ذکر کا مقصد ہی یہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
یہی وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی نے ھدایت دی ہے توآپ بھی ان کے طریقے پرچلیۓ الانعام ( 90 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد