کیا پیلی یا سفید رنگت والی پیپ کے دھبے چاہے خشک ہوں یا گیلے پلید ہیں؟
کیا پیپ پلید ہے؟
سوال: 209123
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
"قیح" یعنی پیپ وہ پیلا لیس دار مادہ ہے جو کہ زخم وغیرہ میں خرابی کی وجہ سے خارج ہوتا ہے۔ " معجم لغة الفقهاء " صفحہ: 373
اور "صدید" یعنی کچ لہو وہ پانی سا ہے جس میں خون کی آمیزش ہوتی ہے، اور یہی بعد میں گاڑھا ہو کر پیپ بنتا ہے۔
دیکھیں: "طلبة الطلبة" صفحہ: 22 ، " الموسوعة الفقهية " (21/ 25)
چنانچہ زخموں میں پہلے کچ لہو ہوتا ہے پھر اس میں پیپ پڑتی ہے۔
تو پیپ ، کچ لہو کا حکم وہی ہے جو خون کا ہے چنانچہ چاروں فقہی مذاہب اور دیگر مسلمانوں میں سے جمہور فقہائے کرام خون کی نجاست اور معمولی خون میں معافی کے حوالے سے کچ لہو اور پیپ دونوں کو خون والا حکم ہی دیتے ہیں؛ کیونکہ پیپ اور کچ لہو خون سے ہی بنتا ہے جس میں خون کے اندر خرابی اور بد بو پیدا ہو جاتی ہے اس لیے اگر خون نجس ہے تو پیپ بالاولی نجس ہو گی۔
مزید کے لیے دیکھیں: " بدائع الصنائع" (1/60) ، " المجموع " (2/558) ، " القوانين الفقهية " صفحہ: 27۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ پیپ خون سے پیدا ہوتی ہے اور فرع کا حکم بھی اصل والا ہی ہوتا ہے۔
پہلے ہم سوال نمبر: (114018 )کے جواب میں خون کی نجاست کے بارے میں وضاحت کر چکے ہیں۔
نیز " الموسوعة الفقهية " (34/128) میں ہے کہ :
"فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ پیپ انسانی جسم سے نکلے تو وہ نجس ہے؛ کیونکہ پیپ خبائث میں شامل ہے، اور فرمانِ باری تعالی ہے: وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ترجمہ: اور وہ ان پر خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔[الاعراف: 157] فطرت ِسلیم اس سے گھن کھاتی ہے، اور یہاں حرمت پیپ کے احترام میں نہیں ہے، بلکہ اس کے نجس ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ پیپ میں بھی نجاست کا معنی پایا جاتا ہے؛ کیونکہ نجس ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس سے انسانی طبیعت میں گھن آئے، اور پیپ سے انسانی طبیعت میں گھن پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ بد بو اور گندگی میں بدل چکا ہے؛ نیز پیپ چونکہ خون سے بنتی ہے اور خون نجس ہوتا ہے۔" ختم شد
ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پیپ، کچ لہو اور جو کچھ بھی خون سے بنے اس کا حکم بھی وہی ہے۔ تاہم امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کا حکم خون سے قدرے نرم ہے۔
جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حسن سے مروی ہے کہ: انہوں نے ان دونوں کو خون جیسا شمار نہیں کیا۔
ابو مجلز رحمہ اللہ کچ لہو کے بارے میں کہتے ہیں: اللہ تعالی نے صرف بہنے والے خون کا ذکر کیا ہے۔ [یعنی ان کے ہاں کچ لہو نجس نہیں ہے۔ مترجم] " ختم شد
" المغنی" (2/483)
نیز آگے چل کر پھر یہ بھی کہا کہ:
"اس بنا پر کچ لہو کی خون کے مقابلے میں زیادہ مقدار نظر انداز کی جا سکتی ہے، کیونکہ کچ لہو کی مقدار اس وقت بہت زیادہ سمجھی جاتی جب خون کی نظر انداز کی جانے والی مقدار سے زیادہ ہو، اور اس لیے بھی کہ اس میں کوئی صریح نص نہیں ہے۔ چنانچہ کچ لہو کو اس لیے نجس سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ خون کی تبدیل شدہ ناگوار حالت ہے۔" ختم شد
"المغنی" از ابن قدامہ: (2/484)
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا خون اور پیپ آپ کے ہاں یکساں حکم رکھتے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: نہیں۔ خون کے بارے میں تو لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے، جبکہ پیپ کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ایک بار انہوں نے یہ بھی کہا کہ: پیپ اور کچ لہو کا معاملہ میرے نزدیک خون کے مقابلے میں قدرے نرم ہے۔" ختم شد
" إغاثة اللهفان" (1/151)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پیپ اور کچ لہو کے پاک ہونے کا حکم اپنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
"کپڑے یا جسم کو پیپ اور کچ لہو سے دھونا واجب نہیں ہے، ان کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔"
یہاں یہ بات بلا شک و شبہ ہے کہ جمہور علمائے کرام کا موقف محتاط اور کوتاہی سے بری الذمہ رکھنے والا ہے، تاہم معمولی کچ لہو اور پیپ کی صورت میں چھوٹ دی گئی ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب ان سے بچنا ممکن نہ ہو، اور عموم بلوی پایا جائے، جیسے کہ عام طور پر بیماروں اور زخمیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
سوال میں مذکور صورت میں دھبوں کا ذکر کیا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ معمولی ہی ہیں بہت زیادہ نہیں ہیں۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (5/363)میں ہے:
"خون، پیپ، کچ لہو اگر معمولی ہوں اور شرمگاہ سے خارج نہ ہوئے ہوں تو ان میں چھوٹ ہے؛ کیونکہ معمولی مقدار میں خون یا پیپ وغیرہ سے بچنے میں مشقت اور حرج ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات