كيا وضوء قائم ركھنے كے ليے دوران نماز يا نماز سے قبل ہوا روكنى جائز ہے ؟
بھوك يا ہوا برداشت كر كے نماز ادا كرنا
سوال: 20958
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" كھانے كى موجودگى ميں نماز نہيں ہوتى، اور نہ ہى دونوں اخبث چيزوں كو روك كر "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 560 ).
شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر رات كا كھانا لگ جائے اور انسان كو بھوك بھى لگى ہو تو كيا وہ پہلے كھانا كھا سكتا ہے چاہے نماز كا وقت بھى نكل جائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اگر كھا لگ جائے اور اس كا دل كھانے پينے والى اشياء ميں مشغول ہو جائے تو اس كے ليے نماز ميں تاخير كرنى جائز ہے چاہے وقت ہى نكل جائے.
ليكن اكثر اہل علم كہتے ہيں كہ: كھانے حاضر ہونا اور لگ جانا نماز كو وقت سے تاخير كرنا كوئى عذر شمار نہيں ہوتا، بلكہ عذر يہ ہو سكتا ہے كہ كھانے لگ جائے تو نماز ترك ہو سكتى ہے، يعنى اگر كھانا لگ چكا ہو اور اس كا دل كھانے كى طرف مشغول ہو جائے تو اس كے نماز باجماعت ترك كرنے كے ليے كھانا لگنا عذر ہوگا، اسے چاہيے كہ وہ پہلے كھانا كھائے اور پھر بعد ميں مسجد جائے اگر تو اسے جماعت مل جائے تو ٹھيك وگرنہ اس پر كوئى حرج نہيں.
ليكن اسے يہ عادت ہى نہيں بنا لينى چاہيے كہ جب جماعت كا وقت ہو تو وہ كھانا كھانے لگ جائے؛ كيونكہ اس كا معنى يہ ہو گا اس نے نماز باجماعت ترك كرنے كا مصمم ارادہ كيا ہوا ہے، ليكن اگر كبھى كبھار اچانك ايسا ہو جائے تو نماز باجماعت ترك كرنے ميں معذور ہوگا، اور وہ سير ہو كر كھانا كھائے اور پھر نماز ادا كرنے جائے، كيونكہ اگراس نے ايك يا دو لقمہ كھائے تو ہو سكتا ہے اس كا دل اور زيادہ كھانے كے ساتھ معلق ہو جائے.
بخلاف ايسے مضطر اور مجبور شخص كے جب وہ حرام كھانا پائے مثلا مردار تو كيا ہم اسے يہ كہہ سكتے ہيں كہ اگر آپ كو مردار كے علاوں كچھ اور نہ ملے اور آپ كو ہلاك ہونے كا خدشہ ہو يا پھر ضرر و نقصان ہونے كا انديشہ تو آپ سير ہو كر پيٹ بھر كے كھا ليں ؟
يا يہ كہينگے كہ: ضرورت كے مطابق كھا لو ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ ہم اسے كہينگے: بقدر ضرورت كھاؤ، اس ليے اگر آپ كو دو لقمے كافى ہيں تو تيسرا لقمہ نہ كھائيں.
اور كيا كھانے كے ساتھ دوسرى وہ اشياء بھى ملحق كى جا سكتى ہيں جو انسان كے ليے تشويش كا باعث بنتى ہوں، مثلا پيشاب اور پاخانہ اور ہوا ؟
جواب:
جى ہاں اس كے ساتھ ملحق كى جائينگى، بلكہ صحيح مسلم ميں حديث موجود ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كھانا حاضر ہو جائے تو نماز نہيں ہوتى، اور نہ ہى دونوں خبيث چيزوں كو روك كر "
يعنى پيشاب اور پاخانہ روك كر اور ہوا بھى اسى طرح ہے.
تو قاعدہ يہ ہوا كہ:
ہر وہ چيز جو نماز ميں انسان كے دل كو مشغول كر دے، اور اگر وہ مطلوب ہو اور دل اس كے ساتھ معلق ہو جائے، يا پھر ناپسنديدہ چيز ہو اور اس سے دل ميں قلق اور پريشانى ہو تو نماز شروع كرنے سے قبل اس سے فارغ ہونا چاہيے.
اس سے ہم ايك فائدہ ملخص كرتے ہيں:
وہ يہ كہ نماز كى روح اور اس كا مغز دل حاضر ہونا ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز شروع كرنے سے قبل ہر اس چيز كو زائل كرنے كا حكم ديا ہے جو نماز كے درميان حائل ہوتى ہو.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 13 ) سوال نمبر ( 588 ).
اور شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:
اگر انسان اپنا پيشاب روك لے اور اسے خدشہ ہو كہ اگر وہ قضائے حاجت كے ليے گيا تو اس كى نماز باجماعت نكل جائيگى، تو كيا وہ پيشاب روك كر نماز ادا كر لے، يا كہ پہلے قضائے حاجت كرے چاہے نماز باجماعت نكل جائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" وہ قضائے حاجت كر كے وضوء كرے چاہے نماز باجماعت نكل جائے؛ كيونكہ يہ عذر ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كھانا حاضر ہو جائے تو نماز نہيں ہوتى، اور نہ ہى دو خبيث اور گندى چيزوں كو روك كر "
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 13 ) سوال نمبر ( 589 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب