كيا شريعت اسلاميہ ميں عورت جج كا منصب سنبھال سكتى ہے ؟
عورت كا جج بننا جائز نہيں
سوال: 21062
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شيخ ابن جبيرين حفظہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا كہ:
كيا عورت كے ليے جج اور قاضى بننا جائز ہے؟
تو شيخ حفظہ اللہ تعالى نے جواب ديا:
عورت كے ليے ايسے وظائف اور عام كام سنبھالنا جائز نہيں جس ميں اسے عموما مردوں سے بات چيت كرنے كى ضرورت پيش آتى ہو، اور ان سے اختلاط ہوتا ہو، اور باہر نكلنے ميں تكرار ہوتا ہو، اور اجنبى مردوں سے باز پرس اور سوالات كرنے پڑيں، اور مستقل طور پر انہيں جواب دينا ہو، كيونكہ يہ عورت كى رعونت، اور اس كى جرات كى دليل ہے.
اور يہ ايسى چيز ہے جو اس كى حياء كو گرانے، اور قلت عفت و حشمت اور شرم ميں كمى، اور آواز بلند كرنے كا باعث بنتى ہيں، اور يہ اس كى حياء اور عورت پن كے منافى ہے.
اور اسى طرح عورت امامت و خطابت، كا منصب بھى نہيں سنبھال سكتى، اور نہ ہى وكالت جيسا پيشہ اختيار كر سكتى ہے جس ميں عدالتوں اور سركارى محكموں كا بار بار چكر لگانا پڑتا ہے جہاں مردوں كى بھرمار ہوتى ہے.
اور يہ تو مردانگى اختيار كرنے كے مترداف ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو عورتوں ميں سے مردانگى اختيار كرنے يعنى مردوں كے ساتھ مشابھت اختيار كرنے واليوں پر لعنت فرمائى ہے.
ليكن وہ كام جن كى عورتيں محتاج ہيں، اسے كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا لڑكيوں كو تعليم دينا، اور عورتوں كا علاج معالجہ اورطب كا شعبہ اختيار كرنا، اور عورتوں كى جتنى بھى بيمارياں ہيں ان كا علاج كرنا، اور اسى طرح ان اداروں اور دفاتر ميں كام كرنا جہاں صرف عورتيں ہى آتى جاتى ہيں، تا كہ عورتوں كو مردوں سے بات چيت كرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے، جو بے پردگى اور بے حيائى كے انتشار اور عام ہونے كا سبب نہ بنے، اور اس كے علاوہ دوسرے اسباب جو فحاشى اور برائى كا باعث بنتے ہيں.
واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: الؤلؤ المكين من فتاوى الشيخ ابن جبرين ( 304 ).
مزيد دلائل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20677 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات