ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کافی عرصہ سے متعدد اسباب کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے، جن میں عائلی سطح پر ذہنی اطمینان، شادی کے باوجود عفت وپاکدامنی کیلئے مشکلات، گناہوں میں ملوث ہونے کا خدشہ وغیرہ بہت سے اسباب ہیں جنہیں یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اسکا ایک اور لڑکی کے ساتھ رابطہ ہوا، تو اس نے اسکے اہل خانہ کی وساطت سے مزید معلومات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن اُس نے لڑکی کو یہ نہیں بتلایا کہ وہ شادی شدہ ہے، اور اسے یقین ہے کہ اگر اسے یہ پتا چل گیا تو کسی صورت میں اس بات پر راضی نہیں ہوگی، یاد رہے کہ وہ دونوں ایسے ملک سے ہیں جہاں ایک سے زائد شادی منع ہے، اب وہ بہت ہی پریشان ہے؛ کیونکہ اس نے پہلی بیوی کیساتھ معاملات درست کرنے سے پہلے دوسری کی تلاش کیلئے رابطے بنا لئے ہیں، اور پریشانی کا دوسرا سبب یہ ہےے کہ اس نے دوسری کو یہ نہیں بتایا کہ اسے اسکی طرف سے پہلی بیوی کو طلاق دینے کے مطالبے کا خدشہ ہے،اب اسکے ذہن میں خیال آتا ہے کہ اگر اس دوسری سے شادی کر لی تو کہیں یہ شادی غلط نہ ہو؛ کیونکہ شادی کی بنیاد غلط ہے کہ دوسری بیوی پہلی بیوی کو اجاڑنے کا سبب بنی؛ میں نے متعدد ویب سائٹس پر پڑھا ہے کہ علمائے کرام ایسی شادی کو درست نہیں سمجھتے جس میں کوئی آدمی کسی کی بیوی کو اُسکے خلاف ابھارتا ہے، تا کہ وہ اس سے شادی کر لے۔
تو کیا دوسری شادی کرنے کی وجہ سے میری صورتِ حال بھی ایسی ہی ہوگی؟
ذہن نشین رہے کہ میں طلاق کے بارے میں کافی دیر سے سوچ رہا ہوں، یعنی اس لڑکی سے رابطہ ہونے سے بھی پہلےسے ، لیکن اس لڑکی سے رابطہ کے بعد طلاق کے متعلق سوچ مزید بڑھ گئی ہے،اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے دوسری کو صراحت سے بتلا دیا تو اسکے دو ہی جواب ہونگے، یا تو میری بات قبول نہیں کریگی، یا پھر طلاق کی شرط لگائے گی، میں اسی وجہ سے صراحت نہیں کرنا چاہتا؛ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری نئی بیوی پہلی بیوی کی جگہ لینے کیلئے طلاق دینے کی شرط لگائے یا اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے شرپسند بنے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ -اللہ نا کرے- میری دوسری شادی ہی غلط ہوجائے، اس لئے میں نے دوسری کو یہ کہہ رکھا ہے کہ میں تمہیں اپنے بارے میں استخارہ کرنے کے بعد مزید معلومات دونگا، میں اسوقت اپنی صورتِ حال کے بارے میں پریشان ہوں۔
پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط / اظہار پسندیدگی پر دوسرے عقدِ نکاح کا حکم
سوال: 211929
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مذکورہ لڑکی کے ساتھ تعلقات بنا کر آپ نے دو طرح سے غلطی کی ہے:
1- آپ نے لڑکی کے ساتھ تعلقات غیر شرعی انداز سے بنائے ہیں، آپ پر ضروری تھا کہ صحیح راستے کو اختیار کرتے ہوئے آپ تعلقات بناتے، کہ اگر آپ شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تو اسکے اہل خانہ سے بات کرتے، جبکہ مستقبل میں شادی کے منصوبے کے تحت ابھی سے دوستیاں قائم کرنا صحیح راستہ نہیں ہے، پھر اس تعلق کی بنیاد دھوکہ ، اورفراڈہے؛ کیونکہ آپ نے اس سے اپنی موجودہ عائلی صورتِ حال کو مخفی رکھا ہوا ہے، اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر اسے پتا چل گیا تو وہ شادی نہیں کریگی۔
2- یہ ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ معاملات استوار کرنے سے قبل ہی آپ نے دوسری شادی کی ٹھان لی ہے، حالانکہ آپکو چاہئے تھا کہ پہلی بیوی سے تنازعات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے،جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ) اچھے سلیقے سے بیوی کو اپنے پاس رکھو یا اچھے انداز سے چھوڑ دو۔ البقرة/229
دوم:
کوئی خاتون کسی مرد پر شادی کیلئے یہ شرط نہیں لگا سکتی کہ پہلی بیوی کو طلاق دے؛ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (کسی عورت کیلئے اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، تا کہ اسکے نصیب اپنی جھولی میں ڈال لے، یقینا اُسے وہی کچھ ملے گا جو اسکی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے)
اسے بخاری ( 4857 ) اورمسلم ( 1413 ) نے روایت کیا ہے۔
اس کے بارےمیں پہلے سوال نمبر (159416)کے جواب میں تفصیل گزر چکی ہے۔
اور اگر کوئی خاتون اس قسم کی شرط لگاتی بھی ہے تو ایسی شرط باطل ہے، جسے نافذ کرنا ضروری نہیں، لیکن اسکی وجہ سے دوسری شادی باطل نہیں ہوگی۔
الغرض ہم آپکو یہی نصیحت کرینگے کہ ، آپ اپنی بیوی کے ساتھ معاملات حل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں، اور طلاق کے بارےمیں مت سوچیں، الا کہ معاملہ اتنا بگڑ جائے کہ کوئی اور راستہ ہی نہ ہو، اور اصلاح ناممکن ہو ۔
ہر ممکنہ کوشش کے بعد اگر آپ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج والی بات نہیں، استطاعت کے وقت شریعت نے آپکے لئے دوسری شادی کی اجازت رکھی ہے، بشرطیکہ آپ اچھی طرح سمجھتے ہوں کہ میں دونوں بیویوں میں عدل کر سکتا ہوں۔
اگر بیوی کے ساتھ معاملات معتدل نہیں ہوتے تو اسے اچھے انداز کیساتھ چھوڑ دیں، اور پھر دوسری نیک بیوی کی تلاش کریں، اور اگر آپ سوال میں مذکورہ لڑکی کے بارے میں سوچتے ہیں تو اسکے اہل خانہ کے ذریعے بات کی جاسکتی ہے، تاکہ آپکی نئی ازدواجی زندگی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہو۔
اور ہر حالت میں آپکے لئے اس لڑکی کے ساتھ تعلقات بنانے حرام ہیں، اسی طرح آپ اس کے ساتھ اس وقت تک براہِ راست منگنی یا شرعی تعلقات بنانے کے اقدامات نہیں کرسکتے، جب تک اسے آپکے سارے معاملات کا علم نہ ہوجائے، تا کہ اسے قبول یا عدم قبول کیلئے سوچ وبچار کا وقت مل سکے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب